خواتین کی گرفتاری اجتماعی سزا کا تسلسل، انسانیت کے خلاف جرائم اور پاکستان کا بلوچ قوم کے خلاف نفرت کی غماز ہے۔ ڈاکٹر مراد بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا ہے کہ آواران سے بلوچ ماؤں کی گرفتاری بلوچ کے خلاف پاکستان کی درندگی اور وحشی پن کاتسلسل ہے۔ ایسے واقعات گزشتہ کئی سالوں سے تواتر سے ہوتے آرہے ہیں۔ یہ واقعات ہمیں ہماری غلامانہ حیثیت اور بے بسی کی احساس دلاتے ہیں اور دوست و دشمن کی پہچان کراتے ہیں۔ ایک جانب ہماری ماں اور بہنیں زندانوں میں گھیسٹے جارہے ہیں تو دوسری جانب نام نہاد پالیمانی قوم پرست وسائل کی بندر بھانٹ اور پنجابی کے ہاتھوں قوم کی سودا بازی میں مصروف عمل ہیں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ صرف ایک ہی دن میں آواران سے چار خواتین جبکہ چند روز قبل ڈیرہ بگٹی سے تیرہ خواتین اور بچے فورسز نے حراست میں لے کر فوجی کیمپ منتقل کیے ہیں۔ آواران کے گاؤں ماشی سے سید بی بی، ہارونی ڈن سے بزرگ خاتون بی بی سکینہ، زیلگ پیراندر سے حمیدہ بنت میر دلبود اور نازل بنت میر درمان پاکستانی فوج نے گھروں پر چھاپہ مار کر گرفتار کرکے اپنے کیمپ منتقل کی ہے۔ خواتین کی گرفتاری اجتماعی سزا کا تسلسل، انسانیت کے خلاف جرائم اور بلوچ قوم کے خلاف پاکستان کی بے انتہا نفرت کی غماز ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ ماں بی بی سیکنہ کا نوجوان بیٹا ایک اور نوجوان کے ساتھ فوج کی تحویل میں ہیں۔ چھاپے کے دوران ان کے شوہر پر فورسز نے بہیمانہ تشدد کرکے شدید زخمی کیا۔ بی بی نازل بنت درمان اس سے قبل بھی فوج کے ہاتھوں گرفتار اور لاپتہ ہوچکی ہے جنہیں تفتیش و تشدد کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔ خواتین کی گرفتاری یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور پاکستانی فوج کے لئے انسانی حقوق، انسانی اقدار کوئی وقعت و اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بلوچستان میں جاری نسل کشی اور قومی تذلیل کے بارے میں علاقائی و عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی مکمل خاموشی ہے۔ اگر پاکستان کی بربریت و جنگی جرائم کے خلاف ذمہ دار عالمی اداروں نے اپنی خاموشی نہیں توڑی تو پاکستان اسے ایک استثنیٰ کے طور پر استعمال کرکے اپنی وحشت و درندگی میں مزید اضافہ کرے گا۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا بلوچ خواتین کی گرفتاری اجتماعی سزا کا بھیانک روپ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد آزادی کے جدوجہد سے جڑے جہدکاروں کے حوصلوں پر ضرب لگاکر انہیں دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرانا ہے۔ لیکن پاکستان اس امر سے واقف نہیں کہ بلوچ اپنے دشمن کے سامنے سر نہیں جھکاتا ہے بلکہ ننگ و ناموس کے لئے سروں کی قربانی دیتا ہے۔ ہماری قومی تاریخ اسی سے عبارت ہے۔ البتہ بلوچ اپنی تاریخ و روایات کے پیش نظر دشمن سے یہ امید رکھتاہے کہ حالت جنگ میں انسانی اقدار کا لحاظ رکھے گا لیکن پاکستان نے قبضے کے دن سے لے کر آج تک ثابت کیا ہے کہ اس غلیظ دشمن سے ایسی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینا اور ایک جرم کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا اجتماعی سزا کے خلاف ہمیں مشترکہ اور منظم آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میں تمام انسانیت نواز اور آزادی پسند دوستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اجتماعی سزا کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔