جنگی حکمتِ عملی | قسط 10 – جنگ میں دھوکے اور حقیقت کا استعمال

586

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا

قسط 10 |چوتھا باب (حصہ دوئم) – جنگ میں دھوکے اور حقیقت کا استعمال

آپ کیلئے یہ ضروری ہے کہ دھوکے کی حامل فوجی نقل وحرکت میں بھی اصلیت کی قوت اور سچائی کو قائم رکھیں اگر ایسا کیا گیا تو دھوکہ دینے کے منصوبے میں دشمن سے شکست نہیں کھائیں گے اگر دھوکے کے اس منصوبے کو حقیقی نوعیت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہوگی تو آپ کی یہ ساری مہم دریا برد ہوجائے گی‘ فوجی معاملات میں کچھ دھوکے مستقل (ٹھوس یا حقیقی) ہوتے ہیں تو بعض قابل تغیر ہوتے ہیں لیکن ان دونوں سے مستقل نوعیت کے دھوکے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں‘ ذیل میں جنگ کی مثالیں دی جارہی ہیں جن میں دھوکے اور حقیقت (Void and actuality) کی عملیت سے متعلق روشنی ڈالی گئی ہے۔

خالی شہرکے فریب کا منصوبہ:
تین بادشاہوں کے زمانے میں شو(Shu) نامی ملک سے وی (Wei) کے حکمران نے جیٹنگ (Jieting) کا علاقہ فتح کرکے اپنے ملک سے ملادیا تھا ‘کچھ عرصہ بعد ملک ”وی“ کا سیمایی(SemaYi) نامی کمانڈر لشکرِ جرارلے کر مغربی شہر پر حملہ آور ہوگیا جو جغرافیائی نقطہ نظر سے انتہائی اہم مقام تھا‘ شو کے پاس اتنی فوج نہیں تھی اس لئے وہ اس کے دفاع کا بندوبست نہیں کرسکا‘ ژوج لیانگ (ZhugeLiang) کو اچھی طرح پتہ تھا کہ اس مغربی شہر کے ہاتھ سے نکل جانے سے ملک کو بہت نقصان پہنچے گا اور اسے شو کی تمام تر فوجی قوت کے ختم ہوجانے کی فکر لاحق تھی‘ اسے یہ علم تھا کہ سیمایی ڈرپورک اور خوفزدہ آدمی ہے اس لئے ژوج لیانگ نے ایک خالی شہر تعمیر کرکے اسے دھوکہ دینے کا فیصلہ کیا‘ دھوکے والے اس شہر کی اچانک تعمیر سے سیمایی ڈر گیا اور ایک منزل طے کرکے تیرہ میل پیچھے ہٹ کر نئے ٹھکانے پر جاپہنچا‘ اس لئے ژوج لیانگ کو نئی فوجی بھرتی کیلئے مہلت مل گئی۔

اس خالی شہر کی تعمیر کا کہیں بھی تاریخ میں ذکر موجود نہیں ہے لیکن تین بادشاہوں کی تاریخ کے حاشیوں میں ایسی بات ضرور درج ہے اگر یہ بات سچ نہیں بھی ہے لیکن اس میں عقل و فہم ضرور ہے‘ اس سے ہمیں یہ علم ملتا ہے کہ اس نے جنگ میں دھوکے کا استعمال کیا جسے اس کی مکمل طاقت اور پشت پناہی حاصل تھی جو درحقیقت اس کے پاس موجود ہی نہ تھی‘ اس نے سیمایی کو ڈرا کر اپنا مقصد پورا کیا تھا لیکن جیسا کہ اس کے پاس فوج موجود نہیں تھی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس کی یہ حکمت عملی مہم جوئی کے ساتھ ساتھ بہادری کا کام بھی تھی۔

شیجئیا ژئان(Shijia Zhuan) کی جنگ:
یہ موجودہ دور کے دھوکے اور حقیقت کی جنگ کی ایک اہم مثال ہے جو پیپلز لبریشن آرمی کے دور سے متعلق ہے۔ اکتوبر 1948ء میں کو منتانگ کے جنرل ہیویی نے شیجیئا ژئان پر حملہ کردیا جس میں اس نے 94 رجمنٹ فوج کی دوسری تین ڈویژنیں اور سات ہزارٹرکیں استعمال کیں اس کی یہ کوشش شیجیئا ژئان کو پلک جھپکتے میں فتح کرلینے کیلئے تھی‘ اس زمانے میں اس شہر کے دفاع کیلئے پی ایل اے کی فقط دو ڈویژن گریژن فوج اور کچھ تربیت لینے والی رجمنٹس موجود تھیں‘ اس کے علاوہ وہاں پی ایل ای کی مقامی تین رجمنٹس بھی موجود تھیں جنہیں کومنتانگ کے علاقے ”وئان“ کی طرف پیش قدمی کرنے سے روکنے کیلئے وہاں مقرر کیا گیا تھا‘محسوس یوں ہورہا تھا کہ اس کے اس چھاپے کو روکنا ممکن نہیں تھا‘ اس لئے جنگ کی اراضی کے فوجی کمانڈروں نے ”خالی شہر کی تعمیر“ جیسے دھوکے کا سوچا اور درج ذیل تدابیر اختیار کیں۔

سب سے پہلے پی ایل اے کے ترجمان نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ ہمیں پوری طرح علم ہے کہ کومنتانگ شیجیئا ژئان پر چھاپہ ماررہا ہے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا جائے گا ہم اس کی فوج کی آمد کی راہ تک رہے ہیں‘ جنرل ہیو(Hue) نے سوچا کہ اگر اس کی فوج نے شیجیئا ژئان پر یلغار کی تو اس کی واپسی کے راستے بند ہوجائیں گے کیونکہ اس کا خیال تھا کہ پی ایل اے کی فوج انتہائی زیادہ ہے۔ وہ بڑی توجہ سے ریڈیو سنتا رہا‘ اس کے علاوہ اس نے اخبارات میں بھی وہی خبریں پڑھیں‘ وہ سیمایی جیسا وہی ڈرپوک اور بزدل تھا اس لئے دہل گیا اس لئے اپنی فوج کو حکم دیا کہ قدم سے قدم ملا کر نہایت خبرداری سے آگے بڑھیں یوں ان کی پیش قدمی کی رفتار خاصی سست پڑگئی۔

دوسرا کام یہ کیا گیا کہ اس اراضی کے کمانڈر نے مقامی فوج کو حکم دیا کہ وئان علاقے کے شمال کی طرف سے جس قدر ممکن ہوسکے کو منتانگ کی فوج کو آگے بڑھنے سے روکیں اس کے علاوہ انہوں نے شیجیئا ژئان کی فوج کو حکم دیا کہ وہ فوتوؤ(Fotoy) ندی کے کنارے جلدی سے ایک قلع تعمیر کرلے تاکہ جنرل ہویے یہ سمجھے کہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بھر پور تیاریاں ہورہی ہیں‘ اسی طرح اس نے کمانڈر چئنگ جیاکاؤ کے ماتحت رہنے والی فوج کو جنوبی سمت میں شیجیئا ژئان کی طرف بڑھنے کا حکم دیا اس کے علاوہ اس نے کمانڈر نے چھٹے کالم(Sixth Colomn) کوحکم دیا کہ یئن ژئی شن(Yen Xishen) کی طرف سے جنرل ہویے کی طرف بھیجی گئی امدادی فوج کے 49 ڈویژن کو قتل کرکے ختم کردیا جائے جس کی وجہ سے جنرل ہویے کی طرف آنے والی امدادی فوج اس تک پہنچ نہیں پائی۔

کچھ دنوں کے بعد جنرل ہویے کو فکر دامن گیر ہوئی اور اوپر سے ہدایات ملنے کیلئے اسے فکر مندی لاحق ہوگی‘ اس نے اپنی ایئر فورس کو حکم دیا کہ شیجیئا ژئان کا جائزہ لے آئیں انہوں نے اوپر سے دیکھا کہ فوتو ؤندی کے کنارے پی ایل اے کی طرف سے ایک نیا قلع تعمیر ہورہا ہے (جو حقیقت نہیں بلکہ ایک دھوکہ تھا) اور شیجیئا ژئان کا شہر ہمیشہ کی طرح سکھ شانت میں تھا اور کسی حملے کا اس پر کوئی شک نہیں تھا۔

تین دنوں کے بعد اس نے پھر اپنی ایئر فورس کو شیجیئا ژئان کا جائزہ لینے کیلئے بھیجا انہوں نے دیکھا کہ پی ایل اے کی فوج جنوب کی طرف بڑھتی ہوئی علاقہ ”یے“ تک آپہنچی تھی۔

جو شیجیئا ژئان کی مدد کیلئے جارہی تھی اور پورے ایک سومیل تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی باتیں سن کر جنرل ہویے نے اندازہ لگایا کہ اس فوج کی تعداد 80 ہزار سے ایک لاکھ تک ہوگی ان کا خیال تھا کہ یہ پی ایل اے کی خشکی کی فوج کے اول درجے کا حصہ ہے جو ہنگامی طور پر شیجیئا ژئان کی مدد کیلئے آرہا ہے اس وقت انہیں 49 ڈویژن کی تباہی کا علم ہوا جو بینزی شن نے ان کی مدد کیلئے روانہ کی تھی‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے شیجیئا ژئان پر چھاپہ مارنے کا خیال ترک کردیا اور شہر تباہ ہونے سے بچ گیا۔ پی ایل اے نے شیجیئا ژئان کو بچانے کیلئے ”خالی شہر“ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جو درحقیقت نہایت کمزور تھا لیکن ظاہراً نہایت طاقتور معلوم ہورہا تھا جس سے دشمن کی پیش قدمی کی رفتار سست ہوگئی‘ اس کے ساتھ شمالی علاقے میں رہنے والی فوج کو شیجیئا ژئان کی مدد کیلئے آگے بڑھنے کا حکم بھی دیا گیا تھا‘ ژوج لیانگ کامنصوبہ جان جو کھم میں ڈالنے اور جوا جیسا تھا جبکہ شیجیئا ژئان کی جنگ میں تیار کردہ منصوبے کو ایک حقیقی پشت پناہی حاصل تھی اس لئے کسی جوکھم کا اندیشہ موجود نہیں تھا۔

درہ مالین(Malian Pass) کی جنگ:
341 قبل مسیح میں ’وی‘ کے حکمران نے ہن(Han) پر حملہ کرنے کیلئے اپنے فوجی کمانڈر پونگ جیان(Pong Juan) کو روانہ کیا تھا ہن (Han) نے مردانہ وار اس کا مقابلہ کیا اور اس کے ساتھ پوری پانچ جنگیں لڑا لیکن آخر میں ہار بیٹھا اس لئے اس نے کوئی اور راہ نہ پاکر ”کی“ کو مدد کیلئے گزارش کی۔ ”کی“ کے حکمران نے اس کی مدد کیلئے اپنی فوج کو ”ہن“ بھجوانے کی بجائے ”وی“ کے دارالخلافہ ”تالیانگ“ کی طرف روانہ کردیا۔ ”وی“ کی فوج نے جب ایسی گھمبیر صورتحال دیکھی تو ”ہن“ سے دستبردار ہونے کے علاوہ اسے اور کوئی راہ نہیں سوجھی‘ اس لئے اس نے ایسا کیا۔

’وی‘ کا بادشاہ ”کی“ کی اس جنگی حکمت عملی کے باعث ہل کر رہ گیا تھا‘ اسے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ اگر ”کی“ کے بادشاہ کو مناسب سبق نہیں سکھایا گیا تو وہ ہمیشہ اس کیلئے دردِ سر بنارہے گا اس نے منتخب فوج کو جمع کرکے اس پر یلغار کرنے کا حکم دے دیا۔ ”ہن“ کے حکمران نے پونگ جئان اور شہزادہ ”شن“ کو فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔ اس طرح یہ دونوں کمانڈر ”کی“ سے دو‘ دو ہاتھ کرنے کیلئے آگے بڑھے۔

”کی“ کو اس حملے کا اچھی طرح علم ہوچکا تھا‘اس نے ”وی“ کا مقابلہ کرنے کی خود میں اہلیت نہیں دیکھی اس لئے اس کا سامنا نہ کرنے کی ٹھانی چیف آف اسٹاف ”سن بن“ نے کمانڈر ”تیان جے“ کو مشورہ دیا کہ ”وی“ کی فوج بہادری میں مشہور ہے اس لئے ”کی“ کو تنکے کی طرح سمجھ رہی ہے‘ اس صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں ”وی“ کی فوجوں کو محسوس کرانا چاہئے کہ ہم اس سے ڈر اور دہل رہے ہیں۔ سن زو کے ”جنگی فن“ کے اصولوں کے مطابق ”رتھ کا کمانڈر ایک سو ’لی‘ آندھی طوفان کی رفتار سے سفر کرنے کے بعد ڈھے جائے گا اور پچاس ’لی‘ سفر کرنے کے بعد باقی جا کر نصف فوج لے کر وہاں پہنچے گا۔“ اس نے مزید مشورہ بھی دیا کہ ”کی“ کی فوج کو ”وی“ کے دارالخلافہ پر حملے سے دستبردار ہوکر بہت پیچھے ہٹ جانا چاہئے تاکہ ”وی“ کی فوج کو ”کی“ کی ملکی سرحدوں کے اندر داخل ہونے کیلئے فریب دیا جاسکے‘ اسی طرح باورچیوں کی تعداد کم کرکے اتنی ہی تعداد سپاہیوں کی بڑھانی چاہئے‘ اس تجویز کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”کی“ کو پہلے کمزور ہونے کا ڈھونگ کرنا چاہئے اور مناسب موقع پر اچانک جاکر ”وی“ کی فوج پر یلغار کردینی چاہئے‘ کمانڈر تیان جے نے ان کے مشورے کو قبول کیا اور تیز رفتاری کے ساتھ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔

”وی“ کی فوج نے جب ”کی“ کی فوج کوپیچھے ہٹتے دیکھا تو وہ اس کے پیچھے دوڑ پڑی‘ وی کے جاسوسوں نے پہلے روز یہ اطلاع بھیجی کہ ”کی“ کے خوراک کے ساتھ وابستہ عملے کی تعداد ایک لاکھ ہے۔

دوسرے روز بتایا گیا کہ یہ پچاس ہزار اور تیسرے روز کہا گیا کہ یہ 20 ہزار ہے۔ جنرل یونگ جیان کو پختہ یقین ہوگیا کہ ”کی“ کی فوج بھاگ چکی ہے اس لئے اس نے اپنی فوج کو مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کا تاکیدی حکم دیا‘ اس کے ساتھ بھی بے شمار فوج تھی جو دن رات بغیر کسی وقفے کے آندھی طوفان کی طرح آگے بڑھتی رہی‘ جب وی کی فوج درہ مالین کے پاس پہنچی تو ”کی“ کے کمانڈروں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئی اور اس کی فوج کا ایک بھی سپاہی بچ نہیں پایا۔ جنرل ”پونگ جیان“ بھی جنگی قیدی بن گیا اس کے بعد ”کی“ کی فوج نے شہزادہ شین کے لشکر پر جا کر حملہ کیا اور اسے اپنا جنگی قیدی بنالیا اس فتح کے بعد شمالی چین میں ”کی“ کی بادشاہی انتہائی وسیع علاقے پر قائم ہوگئی تھی‘ یہ دھوکے کی نادر مثال ہے جسے ”کی“ کی فوج نے طاقتور ہونے کی حالت میں اختیار کیا تھا۔

نتیجہ:
سن زو کے دھوکے اور حقیقت کے نظریے کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس مقصد کے واسطے مقرر کردہ فوج میں لچک کا ہونا ضروری ہے تاکہ حقیقت کو دھوکے میں اور دھوکے کو حقیقت میں بدلا جاسکے۔ ”طاقتور فوج کیلئے دھوکے کی جنگی حکمت عملی“ خود کو کمزور ظاہر کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ ”دھوکے کی حقیقت“ کی جنگی حکمت عملی میں دشمن فوج کے کمانڈر کے مزاج کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اس کے علاوہ اپنے کمانڈرز کی بعض اہم خوبیوں سے بھی واقف ہونا چاہئے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ وہ کون کونسے کام بہتر انداز میں نبھا کر پورا کرنے کے اہل ہیں۔

جب آپ ”دھوکہ“ دینے کی جنگی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتے ہیں تو اسے صحیح انداز میں نبھا کر پورا کرنے کی کوشش کریں‘ دھوکے کی حکمت عملی میں طاقت ہونی چاہئے کہ دشمن اسے حقیقت سمجھنے پر مجبور ہو لیکن ”زوج لیانگ“ کے ”خالی شہر“ کی طرح جوا جیسا دھوکہ نہیں ہونا چاہئے‘ آپ کو اپنی پہل کاری اور محنت سے تیار کردہ منصوبے پر نہایت دھیان اور گیان سے عمل کرنا چاہئے‘ جب آپ سوانگ (نقل یا بہروپ) بھریں تو (اس میں بھی) شعور اورغور و فکر سے کام لیں تاکہ دشمن ششدر رہ جائے دشمن کو اس دھوکے کے ساتھ پھانسنے کی کوشش کریں کہ وہ دھوکے کو دھوکہ ہی نہ سمجھے۔

دھوکہ اور حقیقت خود تبدیل ہونے والے عناصر ہیں اور (یہ) مختصر مدت کیلئے ہوتے ہیں اکثر دشمن کی اختیار کردہ تبدیلیوں کو جانچنا اور پرکھنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے‘ اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ فوجی کمانڈر دانشمند‘ باشعور‘ پھرتیلے‘ لچکدار مزاج کے حامل اور بہادر ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔