دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ
مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 1 | مصنف سن زو: ایک تعارف
چین کی تاریخ میں بہار اور خزاں کا دور ”بہار و خزاں“ نامی ایک کتاب سے پڑا ہے۔ یہ زمانہ ”لو“(Lu) نامی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس خاندان کی حکومت 246 برس چلی جو بادشاہ ژاؤ پنگ کے بعد 49 برس اور بادشاہ زاؤ جنگ کے بعد 39 برس تک چلی تھی۔ مورخین نے اپنی سہولت کیلئے اس دور کو تبدیل کردیا ہے۔ یہ زمانہ پہلے حکمران ژاؤ پنگ(770 قبل مسیح) سے شروع ہوتا ہے اور بادشاہ ژاؤ جنگ کی حکمرانی کے چوالیسویں برس (477 ق۔ م) تک چل کر ختم ہوتا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق اس گھرانے کے راج کا کل عرصہ 265 برس بنتا ہے۔
”شی جی“(Shi ji) اور ”ہنشو“(Hanshu) نامی کتابوں کے مطابق سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ سن وو(سن زو کے گھرانے کانام) کی لکھی ہوئی ہے جو ”بہار وخزاں“ کے دور کے اواخر سے تعلق رکھتا ہے۔ سن زو‘ کی (Qi) نامی ایک ریاست کے شہرلیئان(Lean)میں پیدا ہوا۔’کی‘ کا علاقہ اب ہیومنگ(Huiming) کی انتظامی وحدت اور شنگ ڈونگ صوبے میں ہے۔
یہ جنگی فلاسفر 500 ق۔ م سے تعلق رکھتا ہے‘اس کا دادا چین وان‘ چین (Chen) نامی ملک میں رہائش پذیر تھا، جسے اب صوبہ ہینان(Henan) کہاجاتا ہے۔ اس زمانے میں چین میں صورتحال کشیدہ تھی اس لئے وہ ہجرت کرکے ’کی‘ چلے آئے اور اپنی اصلیت بدل کر تیان(Tien) کہلوانے لگے تھے۔کی ہینگ گونگ (Qi Heng Gong) اسے بہت بھاتے تھے، اس لئے کہ وہ ملک پر بیرونی حملے کے دوران سرہتھیلی پر رکھ کر لڑے تھے اس لئے انہیں سن (Sun) کا خطاب دیا گیا تھا‘ جو پھر ان کی ذات(قبیلہ) بن گیا۔
سن زو کے باپ کانام سن پنگ تھا‘ جو’کی‘(Qi) ریاست کا ایک اعلیٰ عملدار تھا۔ سن زو نے ایک فوجی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی‘ اس لئے اس کا فوجی ماہر ہونا ایک فطری بات تھی۔ اس زمانے کے سماج میں فوجی خدمت کوبڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ’کی‘ جئنگ زیا نامی ایک حکمران کا ملک تھا جو چین کا ایک مشہور فوجی ذہن تھا‘اس ملک کو یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ ملک کا سب سے بڑا سیاستدان اور فوجی سائنسدان گئانگ ژونگ(Guang Zhoung) بھی یہیں سے تھا، اس لئے اس علاقے میں ایک اعلیٰ فوجی ورثہ موجود تھا۔ ریاست’کی‘ (Qi) کے وجود میں آنے کے بعد یہ علاقہ سیاست‘ اقتصادیات‘ ثقافت‘ سفارتکاری اور فوج کا اہم مرکز بن گیا تھا جہاں ملک کے جنگی جوان اور عقل و فہم کے مالک افراد رہتے تھے۔ سن زو نے ایک ایسے بہترین ماحول میں جنم لیا تھا، اس لئے اسے فوجی معاملات کا تجزیہ کرنے کا ایک سنہری موقع مل گیا تھا۔ اسی لئے وہ عین جوانی میں ہی فوجی معاملات کا ایک بڑا عالم بن گیا تھا۔
جب ملک ’کی‘(Qi)ا نتشار کا شکار ہوگیا تو سن زو ہجرت کرکے وو(Wu) کے علاقے میں آکر رہائش پذیر ہوا، جسے اب سوزاؤ جیانگ(Suzhou Jiang) کا صوبہ کہا جاتا ہے۔ ’شی جی‘ کے بیان کے مطابق وہ علاقے کے فوجی جرنیل ووزگزو نے سن زو کو ملک کے حکمران ’ہی لو‘ کے پاس پیش کیا اور اس کی لکھی ہوئی کتاب ”جنگی فن“ سے متعلق بادشاہ کو بتایا۔ جنرل ووزگزو کی باتیں سن کر بادشاہ نے سن زو کو جنرل وو کی فوج کے ایک جرنیل کے طور پر مقرر کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سن زو فوجی معاملات کا ماہر اور جنگی حکمت عملی کے فن کا بڑا ماہر ہے۔ یوں سن زو نے ریاست ’وو‘ میں اپنی فوجی زندگی کا آغاز کیا۔
’وو‘ کے حکمران نے جب چو(Chu) نامی ملک پر حملہ کیا تو جنرل ووزگزو اور سن زو بھی اس کے ساتھ تھے۔ اس حکمران کے مسلسل حملوں نے یو(Yeu) کو تباہ وبرباد کردیا اور اپنے ملک کی سرحدیں سوچینگ(Sucheng) لوئیان(Luian) کئشان اور چاؤ کی بڑی انتظامی و حدت تک پھیلادیں‘جسے اب صوبہ ’انہوئی‘(Anhui) کہاجاتا ہے۔ تین برس کے آرام کے بعد‘ فوج کی از سر نو تنظیم کاری کے بعد پوجو(Puju) کی جنگ فتح پر منتج ہوگئی اور اس کے بعد ’چو‘ کی راجدھانی ینگ(Ying) پر قبضہ کیا گیا۔
قدیم کتاب میں سن زو کا لکڑی پر کنندہ خاکہ:
تاریخ میں کہیں بھی سن زو کے جنم اور وفات سے متعلق کسی قسم کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ اس نے مندرجہ بالا مذکورہ تمام جنگوں میں حصہ لیا تھا۔”Shi“ کی کتاب میں جنرل ووزگزو کی سوانح عمری موجود ہے جس میں سن زو کی کارکردگی کا ذکر نظر آتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے مغرب میں ”وو“ ملک کی ”چو“ جیسے نہایت طاقتور اور پراثر علاقے کو فتح کرنے میں بڑی مدد کی تھی۔ شمال کی طرف ”کی“(Qi) اور ”جن“(Jin) علاقوں کو زیر کرلیا تھا اور جنوب کی طرف ”شی“(Shi) کے علاقے ”یو“(Yue) کو فتح کیا تھا‘ اس لئے ”وو“ اپنے عہد کا ایک طاقتور ملک بن گیا تھا۔ہم بنا کسی شک وشبے کے کہہ سکتے ہیں کہ سن زو نہ صرف فوجی اصولوں اور نظریات کا خالق تھا بلکہ عظیم فوجی کمانڈر بھی تھا جسے فوجی مہمات کو خاص ترتیب دینے میں مہارت حاصل تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔