ہمارے ملک میں، خصوصاً بلوچستان میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہے اس سے بڑی ناانصانی نہیں ہوسکتی ہے۔ ہم لاپتہ افراد کے لواحقین کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ میرے دل کے قریب ہے۔ ان خیالات کا اظہار فیمنسٹ و سوشلسٹ ورکر ندا کرمانی نے کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقعے پر کیا۔
ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ میں ماما قدیر بلوچ کے مقصد کی حمایت کرتی ہوں اور میرا ریاست سے مطالبہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو منظر پر لائیں جو سالوں سے لاپتہ ہیں، ان کے انتظار بیٹھے ان کے لواحقین کو بتایا جائے کہ وہ کہاں ہے۔
خیال رہے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3785 دن مکمل ہوگئے، ندا کرمانی کے علاوہ مند کے علاقے سورو سے ہیبتان بلوچ، دلمراد بلوچ و دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچسان میں ایسے ہزاروں واقعات وقت کے فرعونوں کے ہاتھوں رونما ہوچکے ہیں جو ہنوز جاری ہے، جہاں چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنا اب ان کے لیے کوئی بات نہیں ہے، ممتا کے پیار کو آزمائشوں میں ڈال کر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور مستقبل کے ان معماروں کو ان سے چھین کر اندھیر نگری میں پھینک دیا جاتا ہے اور جمہوریت کے محافظ یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ہم لبوچستان میں بھائی چارے کے عمل کے لیے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ظالموں کے پاس اب اپنے مکرو فریب کو طول دینے کے سوا کچھ بچا نہیں تھا تو انہوں نے بلوچستان میں سازشوں کی ایک اور داستان شروع کردی، جمہوریت کے ان نقاب پوشوں نے پیچھے سے وار کرنا شروع کردیا کہ بلوچستان میں مرکز اور اس کے حواریوں کے خلاف نفتروں رنجشوں کا جو طوفان برپا ہوچکا ہے اس پر کسی حد تک قابو پایا جاسکے، ماضی کی تلخیوں پر مصنوعی معافی مانگ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جتنے بھی بلوچ مرد خواتین، نوجوان، عمر رسیدہ افراد لاپتہ کیے گئے ہیں انہیں منظر عام پر لاکر اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ اور اس کے حواری صدارتی محل کے چکروں میں یہ بھول گئے کہ عید سے پہلے انہوں نے تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تھا کہ اس دفعہ تمام لاپتہ افراد عید کی خوشیاں اپنے گھروں میں اپنوں کے ساتھ منائیں گے، امید کی یہ نوید سن کر ہر ممتا کو وہ پیار جھلک اٹھا جو برسوں سے اپنے لخت جگروں کی تصویر اٹھائے ہوئی تھی۔