جاگیرداری نظام، ڈاکٹر مبارک علی کے کتاب کی روشنی میں
تحریر: واھگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ابتدائی تاریخی دور کے مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ شکار کا زمانہ، زمانہ غلامی، اور اس کے بعد فیوڈل ازم یا جاگیرداری کا زمانہ آتا ہے. فیوڈل ازم کا زمانہ خاص طور پر یورپ میں اور زیادہ تر مغربی یورپ میں وجود میں آیا، وہاں کے سیاسی، معاشی، اور سماجی حالات کے تحت پیدا ہوا، اور اُنہی قدر، روایات اور اداروں کے ساتھ فروغ پاکر مکمل ہوا، تاریخ کے حوالے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دنیا کی تمام معاشروں اور تہذیبوں میں اس کی شکل و ہیت مختلف تھی، جین کا جاگیردارانہ نظام، جاپان کا سمورائی، اور عربوں کا مشرق وسطیٰ میں فتح کے بعد اقطاع (بادشاہ کا کسی شخص کو اراضی یا ملک عطا کرنا) کے نظام خاص حالات کے تحت مرتب ہوئے. ان تمام نظاموں میں زمین کی ملکیت اور پیداواری زرائع چند ہاتھوں میں رہی، جس کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی مفادات کی خاطر ایسی ثقافتی، مذہبی، سماجی، اور تہذیبی روایات کو پروان چڑھایا جو اس نظام کو تحفظ دے. تاریخ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ادارے، روایات، نظریات و افکار خاص حالات اور ضروریات کو پورا کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور انکی افادیت ختم ہوجاتی ہے، تو اس کے ساتھ ہی انکا وجود بھی ختم ہوجاتی ہے اور یہ بھی ضرور دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر نظام اپنے روایات کے ساتھ اپنا وجود یا بقاء کو بچانے کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔
موجودہ دور میں صورت حال یہ ہے کہ صنعتی تبدیلیوں نے کئی ملکوں میں فیوڈل ازم یا جاگیرداری کو ختم کردیا ہے اور کئی معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں فیوڈل ازم اور صنعتی اداروں کے درمیان کش مکش جاری ہے تو کچھ معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں فیوڈل ازم صنعتی پیمانے اور قبائلی روایات کے درمیان تصادم برقرار ہے. اس لئے اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے ہمیں فیوڈل ازم کو اِسکی تاریخی پس منظر سے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا تاکہ اس بات کا تعین کریں کہ تاریخ میں اس کا کردار کس طرح سے بدلتا رہا ہے۔
جب یورپ میں رومی سلطنت کا زوال ہوا اور اسکے نتیجے میں فیوڈل لارڈ نے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا تو اس افراتفری اور بد امنی کہ زمانے میں کسان طاقتور لوگوں کے پناہ میں آنے لگے، انہیں یہ پناہ اُس شرط پر دی جاتی تھی کہ وہ اپنی زمینوں کا حق اور ملکیت اُن فیوڈل لارڈ کے نام کردیں جسکے عوض یا بدلے میں اُن کسانوں کو نہ صرف پناہ دیا جاتا بلکہ یہ حق بھی دیا جاتا تھا کہ ان کسانوں کو ان زمینوں پر زندگی بھر کھیتی باڑی کرنے کا حق حاصل ہوگا، فیوڈل ازم سے منسلک جو ادارے تھے ان میں ریاست، خاندان، اور چرچ اہم تھے.
ہندوستان کے مشہور مورخ کوسمبی فیوڈل ازم کی ارتقاء کے بارے میں لکھتے ہیں کہ” یہ نظام دو طریقوں سے سامنے آیا ہے ایک وہ فیوڈل ازم جو اوپری سطح سے نافذ ہوا اس قسم کے فیوڈل ازم میں بادشاہ اپنے ماتحتوں یعنی اپنے رعایا پر خراج عائد کرتا تھا، یہی ماتحت فیوڈل اپنے علاقوں میں پورے اختیارات کے حامل ہوتے تھے. جب تک وہ اپنے بادشاہ کو خراج ادا کرتے رہتے تھے تو انہیں یہ اجازت اپنی بادشاہ سے حاصل تھی کہ وہ اپنے علاقوں میں جس طرح سے چاہیں حکومت کرسکتے ہیں۔
اور دوسری قسم کی فیوڈل ازم وہ تھی جو نیچے سے ارتقاء پذیر ہوئی، اس میں فیوڈل اپنے علاقوں میں فوجی طاقت کے زریعے اپنی حکومت قائم کرتی تھی. اسی طرح یہ ریاست و سلطنت اور کسانوں کے درمیان ایک واسطہ بنا رہتا. مرکزی حکومت کی طرف سے انہیں یہ حق ہوتا تھا کے وہ لگان (وہ آمدنی جو مالک کو زمین سے حاصل ہو) وصول کرے اور ضرورت کے وقت سلطنت کی فوجی مدد کرے. اس نظام میں فیوڈل کے کارکن لگان وصول کرکے مرکزی حکومت کو پہنچاتے تھے جبکہ اوپری سطح کے فیوڈل ازم میں لگان مرکزی حکومت کے خودکے کارکن و عہدےدار جمع کرتھے تھے… ”
اس کا سب سے اہم مقصد یہ ہوتا تھا کہ زراعتی پیداوار کو زبردستی چھین لیا جائے تاکہ اس کی آمدن کی بنیاد پر امپیریل ریاست قائم رہے. اس صورت حال کی وجہ سے پیداوار کا حقیقی مالک کسان پیداواری فوائد سے محروم رہتا تھا.
اس نظام میں کسان کو اپنی پیداوار سے مکمل طور پر جدا تو نہیں کیا جاتا تھا مگر اس سے زائد مقدار لے لی جاتی تھی، کیونکہ ایک فیوڈل کہ لئے سب سے اہم چیز زمین ہوتی تھی جس سے اُسے معاشی و سیاسی اقتدار ملتا تھا اس لئے زمین کے تحفظ کی خاطر وہ تمام اخلاقی و سماجی اصول و قاعدے قربان کر دیتا تھا زمین کے مقابلہ میں قوم نسل اور ملک اسکے لئے اہم نہیں رہتے تھے..
فیوڈل ازم کے ادارے کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں تین عناصر ملتے ہیں.. 1.. کسانوں کی غلامی..
2..جاگیر..
3.. جاگیر کو بطور یونٹ استعمال کرنا..
جب یہ تین عناصر مضبوط ہوں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف تجارت زوال پذیر ہوتی ہے بلکہ شہروں کی آبادی بڑھنے نہیں پاتی، کیونکہ جب بھی شہروں کی آبادی بڑھتی ہے اور تجارت کو فروغ ملتا ہے تو اسکی وجہ سے فیوڈل ازم کا نظام کمزور ہوتا ہے کیونکہ کسانوں کو شہروں میں ملازمت کے مواقع میسر ہونے لگتا ہے اور وہ اپنے گاوں دیہات چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور شہر میں کام کاج کرنے چلے جاتے ہیں اسلئے جب ریاست تاجروں کی ہمت افزائی کرتی ہے تو فیوڈل اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کسانوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دیتا ہے کیونکہ اسکی زمین کی پیداوار کا انحصار کسان کی محنت سے ہوتا ہے.
فیوڈل ازم یا جاگیرداری نے جب بھی تمام مادی وسائل اور اقتدار کو ایک طبقے میں محدود رکھا تو اسکی وجہ سے معاشرے کے دوسرے طبقوں کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ابھاریں اور انہیں معاشرے کی ترقی میں استعمال کر سکیں۔
اس لئے جب بھی فیوڈل ازم یا جاگیرداری طبقہ پر زوال آیا تو زوال کے اس عمل کو روکنے والا یا انکا دفاع کرنے والا کوئی نہیں رہا اور آخر میں فیوڈل یا جاگیردار تمام زرائع سے محروم اقتدار سے علیحدہ بے یار و مددگار اور معاشرے سے روپوش ہوگیا، جسکی سب سے بڑی مثال اٹھارویں صدی کے مغل جاگیرداروں کے بارے میں ہمیں تاریخ کے مطالعہ سے ملتا ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنے خستہ حویلیوں میں بند، اپنے پھٹے ہوے لباسوں میں ملبوس، بھوک سے نیم مردہ، اور لوگوں سے منہ چھپائے زندگی کے اخری دن گذار رہے تھے. انکی اس حالت پر نہ کوئی ماتم کرنے والا تھا اور نہ کوئی ترس کھانے والا یہی لوگ اپنے خانداوں اور آباؤاجداد پر فخر کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ اُنکے نام و نشان مٹ گئے.
یہ سب اس لئے ظہور پزیر ہوا کے جو فیوڈل یا جاگیردار تھے انہوں نے جس طبقاتی نظام کی بنیاد ڈالی تھی اس میں حاکم اور محکوم میں اس قدر فرق اور دوری تھی کہ اُس نظام نے معاشرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا، اس لئے محکوم طبقہ اس قدر کچلا اور دبا ہوا رہا کہ اس نے اپنی حالت پر قناعت کرلی اور تھوڑی سی چیز پر راضی ہونا اپنے لئے بہتر سمجھا، اور اگر کبھی مزحمت کے راستے کو اختیار کیا تو پر تشدد اور ظالمانہ طریقہ سے ختم کرکے رکھ دیا، اس لئے جب کبھی فیوڈل یا جاگیردار پر زوال آیا تو محکوم اور مظلوم طبقوں میں اُنکے لئے کوئی ہمدردی نہیں تھی.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔