بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جامعہ بلوچستان پر لگے ہراسانی کے داغ یونیفارم سے نہیں ڈھکے جاسکتے۔ برسوں سے جاری ہراسمنٹ پر ایف آئی اے کے انکشافات کے بعد طلباء کا غم و غصہ ابھی بھی ابل رہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء کو یونیفارم پہننے کی پابندی کا اعلامیہ سنا کر انہیں مزید دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے جوکہ پھر ہراسمنٹ کے ہی زمرے میں آتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طلباء کے ساتھ یہ ناروا سلوک قومی محرومیوں میں مزید شدت بھرنے کے موجب بن رہے ہیں، پورے پاکستان میں کسی بھی یونیورسٹی میں طلباء پر یونیفارم پہننے کی پابندی لاگو نہیں ہے مگر بلوچستان میں ایسی پابندی عائد کرکے نوآبادکار کی تاریخی کردار کو از خود بے نقاب کیا جا رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ معزز جج صاحب کا یونیفارم کی پالیسی کی توثیق کرنا باعث افسوس ہے۔ یونیفارم سے طبقاتی برابری نہیں آتی بلکہ طبقاتی نظام تعلیم کے تنسیخ سے ہی طبقاتی برابری کا ماحول پیدا ہوگا۔
طبقاتی تفریق پر قائم تعلیمی ادارے الگ الگ ہیں، بالائی طبقے کے لوگ جامعہ بلوچستان میں نہیں پائے جاتے بلکہ یہاں سبھی لوئر مڈل کلاس اور محنت کش عوام کے بچے پڑھتے ہیں اور نا ہی بالائی طبقے کی جامعات جیسے لمز اور ایچیسن میں اس کلاس کے لوگ جانے کے خواب دیکھ پاتے ہیں امیروں کے تعلیمی ادارے ملکی سطح پر الگ اور غریبوں کے ادارے الگ ہیں، تو براہ کرم یہاں یہ ڈھونگ رچانے کی کوشش نا کی جائے نا ہی یہ چورن یہاں بکے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک امر ہے کہ سندھ اسمبلی طلبہ یونین پر سے پابندی ہٹانے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ بلوچستان میں روزافزوں طلباء کا مزید گھیرا تنگ کرنے پالیسیاں تیار کی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے ارکان پارلیمان اور پارلیمانی جماعتیں اپنے پھیلائے گئے گندھ سے اس قدر سرمشار ہیں کہ وہ طلباء کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ذنی کے خلاف لب کشائی سے بھی کترا رہے ہیں جبکہ ان جماعتوں کے مریدین جو پاکٹ آرگنائزیشن کی صورت میں اداروں میں موجود ہیں وہ اپنے فرسودہ روایتی خصلتوں کے تحت طلباء کو طاقتور کرنے کے بجائے طلباء تنظیموں پر سے ان کا اعتماد مزید اٹھا رہے ہیں جس کے نقصانات پھر قومی سیاست پر ہی پڑیں گے۔
بی ایس او کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ یونیورسٹی کو صوبائی حکومت فوری طور پر اپنے تحویل میں لے اور پراونشل ہائیر ایجوکیشن کمیشن تشکیل دے کر اٹھارویں ترمیم کی رو سے آئینی تقاضوں کو پورا کرے اور تعلیمی ادارے کو وفاقی نمائندہ گورنر کی چنگلوں سے آزاد کریں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ طلبہ یونین بحال کرکہ طلباء نمائندگی کے حق کو تسلیم کیا جائے اور یونیفارم اور سیکیورٹی کے نام پر مزید سخت گیریاں بڑھانے سے گریز سے کیا جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ بی ایس او یونیورسٹی انتظامیہ پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ سابق وائس چانسلر کی برطرفی کا مقصد قطعی طور یہ نہیں ہے کہ طلباء اسے فتح مان کر خاموش بیٹھ جائیں گے اور نو وارد گروہ یونیورسٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرکے جبر کی نئی تعزیریں مسلط کر دے۔ طلباء یونیورسٹی پر اپنا حق منوانے اور مدرعلمی کو جیل خانہ جات سے دوبارہ علمی درسگاہ بنانے تک سکھ کا سانس نہیں لینگے اور بی ایس او ہر امتحان و آزمائش میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرے گی۔