تیل، گیس معاہدے: وفاق کے وفد کو بلوچستان میں ناکامی کا سامنا کیوں ہوا؟

161

بلوچستان حکومت کے ذرائع کے مطابق وزیر توانائی اور دیگر افسران پر مشتمل وفاقی وفد نے سوئی گیس لیز کی معیاد اور گڈانی میں آئل ریفائنری کے منصوبے کی لیز میں توسیع کا مطالبہ کیا، جسے وزیراعلیٰ جام کمال نے مسترد کردیا۔

وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب، پاکستان  تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین، وفاقی سیکرٹری اور توانائی و پیٹرولیم کے دیگر افسران پر مشتمل ایک وفاقی وفد گذشتہ دنوں خصوصی طیارے سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ آیا، جہاں انہوں نے وزیراعلیٰ جام کمال سے ملاقات کرکے 2015 میں ختم ہونے والی سوئی گیس لیز کی معیاد اور گڈانی میں آئل ریفائنری کے منصوبے کی لیز میں توسیع کا مطالبہ کیا، تاہم صوبائی حکومت نے سابقہ معاہدوں کے تحت لیز میں توسیع سے انکار کردیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق بلوچستان حکومت کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے وفاقی وفد کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ’یہاں کے قدرتی وسائل اور زمین صوبے کے عوام اور حکومتِ بلوچستان کی ملکیت ہے۔ ہم سابقہ شرائط کے تحت ہونے والے کسی بھی لیز معاہدے کی معیاد میں توسیع نہیں کرسکتے۔‘

سوئی گیس فیلڈ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں واقع ہے جہاں قدرتی گیس کے ذخائر 1953 میں دریافت ہوئے تھے۔ حکومت پاکستان نے پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کو یکم جون 1955 کو یہاں 30 سال کے لیے مائننگ کی اجازت دی تھی۔ سوئی گیس فیلڈ کے حوالے سے لیز کی مدت میں یکم جون 1985 کو مزید 30 سال کی توسیع کی گئی جو 31 جولائی 2015 کو ختم ہوچکی ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاقی وفد سے کہا کہ ’نئی شرائط پر لیز کے معاہدے میں توسیع کرنی ہے تو ہمارے ساتھ بات کی جائے، بصورت دیگر ہم سابقہ معاہدوں کے تحت کسی بھی لیز کی توسیع نہیں کریں گے۔‘

یاد رہے کہ 1996 میں پاک ایران آئل ریفائنری کے قیام کے لیے PEIRAC  کو گڈانی میں پانچ ہزار روپے فی ایکٹر کے حساب سے 1800 ایکٹر اراضی الاٹ کی گئی تھی، لیکن تاحال اس اراضی پر ریفائنری کی تنصیب اور قیام کے حوالے سے کام نہ ہونے پر بلوچستان حکومت نے اس لیز کو منسوخ کردیا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاق کے وفد کو آئین کی شق 172 کے ذیلی سیکشن تین کے تحت بلوچستان سے تیل کے ذخائر تلاش کرنے کا معاہدہ قانون کے مطابق کرنے کا مطالبہ کیا۔

آئین کی مذکورہ شق کے تحت بلوچستان میں تیل وگیس کے ذخائر کی تلاش اور برآمد میں صوبے اور وفاق کا حصہ 50/50 فیصد کا ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی وفد نے کوشش کی کہ گڈانی کی آئل ریفائنری کی منسوخ شدہ لیز کو بحال کیا جائے، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفد سے کہا کہ ’اگر وفاق نے ہم سے آئل ریفائنری کے حوالے سے معاہدہ کرنا ہے تو اس میں بلوچستان کا حصہ ہوگا، جس میں ہم شراکت دار بن کر معاہدہ کریں گے۔‘

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاق کے وفد سے کہا کہ ’سابقہ ادوار میں غلط طرز کے معاہدوں کی وجہ سے بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی بڑھا اور صوبہ پسماندگی کی طرف چلا گیا ہے۔‘

یاد رہے کہ سوئی لیز کے معاہدے کو وفاق ایس آر او (قانونی ریگولیٹری آرڈر) کے ذریعے چلا رہا ہے جب کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل کے حوالے سے معاہدوں کا اختیار صوبوں کو منتقل ہوا ہے۔

بلوچستان میں اس سے قبل ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ کا معاہدہ بھی منسوخ ہوا تھا، جس کے بعد مائننگ کرنے والی کمپنی نے عالمی عدالت سے رجوع کرکے پاکستان سے ہرجانہ طلب کیا۔

بلوچستان میں قوم پرست اور سیاسی جماعتیں ملکی، عالمی اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

بلوچ مسلح گروپوں کی جانب سے مذکورہ کمپنیوں کو نشانہ بنانے کیساتھ ان معاہدات کو بلوچ عوام کے مرضی خلاف قرار دیا چکا ہے۔ گذشتہ سال سے ان پروجیکٹس سے منسلک کمپنیوں خصوصاً چائنیز انجئنرز اور ورکرز کو نشانہ بنایا جاچکا ہے جس کے تحت بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے گذشتہ سال 11 اگست سے رواں سال 11 مئی تک تین خودکش حملے اور آپریشن کیے جاچکے ہیں۔

علاوہ ازیں ان مسلح گروپوں کی جانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سی پیک سمیت دیگر پراجیکٹس سے کمپنیوں کو مختلف اوقات میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔