تربت میں خفیہ اداروں کی ڈکیتیاں
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک عرصے سے بلوچستان کے اہم شھر تربت میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں شروع کی گئی ہیں، جو باوجود شھریوں کے التجاء اور اکا دکا پولیس کی کاروائیوں کے تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
میڈیا اطلاعات اور مقامی ذرائع کے مطابق جہاں پہ اور جن گھروں میں رات کے اوقات ڈکیتی کی وارداتیں کی گئیں ڈاکوؤں کا طریقہ کار یکساں تھا۔
تربت میں اس عرصے میں ڈکیتی کی ہوشربا کاروائی سیٹھ حامد نامی شخص کے گھر ہوئی۔ متاثرہ خاندان کے مطابق ڈاکو سادہ لباس میں آئے اور اپنا تعارف ملٹری انٹیلیجنس کے اہلکاروں کے بطور کرانے کے بعد گھر کی تلاشی اور مشکوک شخص کے گرفتاری کی بات کی، اس کے دوران گھر کے مرد و خواتین پر اسلحہ تان کر انہیں یرغمال بنایا اور تمام کمروں کی تلاشی لے کر سونا، نقدی، موبائل فون اور تمام قیمتی سامان جمع کیئے۔
اس تمام عمل میں ڈاکوؤں کو تین سے چار گھنٹے کا وقت لگا، جس کے بعد وہ اطمینان کے ساتھ چلے گئے۔ صبح اس واقعے کی خبر پولیس کو دی گئی مگر ڈکیتی کی اس واردات کا کھوج لگانے کو پولیس کی طرف سے کوئی حرکت نہیں نظر آئی۔
اس واقعے کے بعد ایک دکان دار کو چاہ سر اور ڈکیتی کے دوران اورسیز ایریا واسطو بازار سے ایک اور دکاندار کو قتل کیا گیا بظاہر یہ دونوں واقعات ڈکیتی کی عام واقعات تھے، مگر ایسا بالکل نہیں تھا، یہ ڈاکو سرکاری خفیہ اداروں کے مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے لوگ تھے۔ جن کے پاس بغیر نمبر پلیٹ گاڈیاں اور بندوق تھے حالانکہ عام لوگوں کے لیے ان دونوں چیزوں کا استعمال نا صرف ممنوع بلکہ جرم ہے۔ جس کی سزا مقرر ہے۔ عام لوگ اپنی حفاظت کے لیے گھروں میں خفیہ اداروں اور ایف سی کے خوف سے پسٹل تک نہیں رکھ سکتے مگر سرکاری ڈیتھ اسکواڈز کے کارندے باقاعدہ پورے بلوچستان میں سرعام اسلحہ لیے گھومتے اور دندناتے پھرتے ہیں، ان پر ریاست کے کسی ادارے کی طرف سے کوئی بندش نہیں۔
ان واقعات کے فوری بعد آبسر میں ڈکیتی کی ایک ایسی واردات ہوئی جیسا سیٹھ حامد کے گھر ہوا تھا، یہاں بھی سرکاری اہلکار اور تلاشی کا کہا گیا، پھر پورا گھر لوٹ کر تین سے چار گھنٹوں کی کاروائی کے بعد ڈاکو آرام سے چلے گئے۔ سیٹھ حامد کے گھر لوٹ مار کرنے والوں کے جیسا یہاں پہ بھی کچھ بات چیت آپس میں اردو زبان میں کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں میں غیر بلوچ بھی شامل تھے۔
یہ تمام واقعات جو پے در پے ہورہے تھے کے بعد لوگوں میں اشتعال بڑھا، عوام نے سیاسی جماعتوں پہ پریشر ڈالا کچھ سیاسی جماعتیں ان واقعات کے خلاف متحرک ہوئیں اور انتظامیہ پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے دبائو ڈالا تب جاکے پولیس کچھ متحرک ہوئی اور ملزمان کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کیا۔
پولیس نے کچھ ملزمان پکڑ لیے جو واقعی خفیہ اداروں کے اسکواڈز میں سے تھے اور ان واقعات میں براہ راست ملوث تھے۔ انہوں نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ براہ راست ملٹری انٹیلیجنس کے ساتھ مل کر ایسا کررہے ہیں۔ پولیس نے ان ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش کیا اور ان کی شناخت اور خفیہ اداروں کے ساتھ ان کا تعلق بھی ظاہر کیا۔
اس کے بعد پولیس پر دباو ڈال کر گرفتاریوں کا سلسلہ روک دیا گیا اور سب سے متحرک ایک پولیس افیسر کا تربت سے گوادر تبادلہ کیا گیا جس کے بعد یہ معاملہ دب گیا۔
پولیس کی کاروائیاں تھمنے اور گرفتاریوں کا سلسلہ ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ ڈکیتی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس وقت تربت مکمل ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے یرغمال میں ہے، جنکا براہ راست تعلق خفیہ اداروں اور ایف سی کے ساتھ ہے۔ خفیہ ادارے ان ملزمان کو اپنا رابطہ کہہ چکے ہیں، جو بلوچ معاشرے میں ہر قسم کی گندگیوں کے لیے سرکاری مخبری اور دلالی کے عوض مکمل آذاد ہیں۔
حال ہی میں ڈکیتی کی ایک اور واردات بگ نامی گاوں میں ہوئی ہے جو مکمل طور پر سیٹھ حامد کے گھر جیسا واقعہ ہے اس میں بھی رات کو ڈاکو آئے اردو اور بلوچی میں بات کی پہلے خود کو ملٹری انٹیلیجنس اور ایف سی کا اہلکار شناخت کرایا اور پھر تلاشی لینے کے نام پر پورے گھر کو لوٹ لیا۔
سرکاری سرپرستی میں جاری لوٹ مار میں عوام بے حد تنگ اور خوف زدہ ہیں۔ وہ گھر جہاں پہ ڈاکہ ڈالا جاتا ہے وہ کوشش کے باوجود ڈاکوؤں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ہیں کیوںکہ پھر ان گھر والوں کو ایف سی اور خفیہ اداروں کے زریعے انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صوبے میں اس وقت جو حکومت ہے وہ براہ راست ان ڈاکوؤں کی لائی گئی حکومت ہے اس لیے وہ نا صرف ان کاروائیوں پر چپ ہے بلکہ ان کے خلاف پولیس کو کاروائیوں سے روکتی بھی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔