بی ایس او ’طلبا یکجہتی مارچ‘ کا مرکزی ساجھے دار

288

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 29 نومبر کا ‘طلبا یکجہتی مارچ’ خطے کی سیاسی تاریخ بدلنے میں سنگ میل ثابت ہوگی، ‘بی ایس او’ اس مارچ کا خاموش شریک نہیں ہے بلکہ مارچ کا مرکزی ساجھے دار ہے۔ساتھی سرفروشانہ جذبہ کے ساتھ بھرپور طاقت کا مظاہرہ کریں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چند گردشی مباحثوں سے جو غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں ‘بی ایس او’ ان کی فوری بیخ کنی کرتی ہے اور سب پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ‘سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی’ نے جو بھی مطالبات اٹھائے ہیں ‘بی ایس او’ ان سب سے من و عن اتفاق کرتی ہے۔ طلباء کے بنیادی مسائل کے علاوہ کوئی غیر اہم نکات مطالبات کا حصہ نہیں ہیں۔

ایسا قطعی طور نہیں ہے کہ ‘بی ایس او’ کے آگے تیار شدہ مطالبات لا کر رکھے گئے ہیں جن پر آنکھیں موند کر اتفاق کیا گیا ہو بلکہ ان مطالبات کو تشکیل دینے میں ‘بی ایس او’ نے بنیادی کردار بھی ادا کیا ہے۔ ‘بی ایس او’ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی تاسیسی اجلاس کا ممبر آرگنائزیشن ہے اور ‘بی ایس او’ کا ہی نمائندہ سنگت اسد بلوچ اس وقت ‘سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی’ کا مرکزی ترجمان ہے۔ جس کا یہی مطلب ہے کہ ‘سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی’ ہماری نمائندہ اتحاد ہے جسے بھرپور کامیاب بنانے میں ‘بی ایس او’ جی جان سے کوششیں جاری رکھے گی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جن نکات پر سوشل میڈیا پہ اعتراضات اٹھ رہے ہیں ان میں سے سنجیدہ نکات اب بھی ‘سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی’ کی اندرونی فورم پر زیربحث ہیں اور تمام مناسب مدعوں پر اتفاق کے بعد ان کی پرچار کی جائیگی۔

بی ایس او کے ساتھی اتحاد کے ڈسپلن کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوری مرکزیت کے اصولوں کے تحت جدوجہد جاری رکھیں گے اور طلباء کو توانا و طاقتور کرنے میں ہر اول دستے کا کردار نبھائیں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘بی ایس او’ تمام طلباء کو صدا لگاتی ہے کہ آئیں اتفاق و اتحاد کے تن آور درخت کے چتر چھایہ میں یکجا ہوں اور اپنی تقدیروں کے فیصلوں پر خود قادر آجائیں۔