بلیدہ میں لائبریری کا قیام اور ادبی میلہ

481

پسماندہ بلوچستان کے پسماندہ ترین دیہاتوں میں سے ایک بلیدہ جو صحت کے مراکز کے علاوہ معیاری تعلیم سے بھی یکسر محروم ہے جبکہ اس نیم شہری دیہات کو ایک سڑک بھی میسر نہیں جو اسے قریبی بڑے شہر ’تربت‘ سے جوڑ دے جوکہ محض چالیس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

علم کی تشنگی سے لبریز بلیدہ کے نوجوانوں نے بڑی محنت و جتن کے بعد شہید میر حاصل رند فاونڈیشن کے زیر اہتمام شہید میر حاصل رند میموریل لائبریری کے نام سے بلیدہ کا پہلا پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا جس میں علم دوست حضرات سے کتابوں کے عطیات لیکر دو ہزار سے زائد کتابیں جمع کی گئیں۔

لائبریری کی افتتاحی تقریب دو نومبر کو ادبی میلہ کی صورت میں منعقد ہوا جس میں حیران کن حد تک عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی. تقریب کی انتہائی مثبت خوبی یہ تھی کہ اس میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اساتذہ اور طالبات بھی شامل تھیں جوکہ بلیدہ جیسے سماج میں کسی عظیم کارنامے سے کم نہ تھا۔

تقریب چار حصوں پر مشتمل رہا۔ پہلا سیشن ‘کتاب کی اہمیت اور کتاب کلچر کی ضرورت’ پر ایک پینل ڈسکشن تھا جس کے ماڈریٹر سہیل اسماعیل تھے جبکہ پینلسٹ میں تربت یونیورسٹی کے منیجمنٹ سائنسز کے ہیڈ ڈاکٹر ریاض مزار، تربت یونیورسٹی سیاسیات ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ جمیل بادینی، بلیدہ کے سماجی رہنما حاجی برکت بلیدئی، رژن پبلک سکول کے ڈائریکٹر ظہور بلوچ، رہشون پبلک سکول کے ڈائریکٹر شاہ فیصل اور کلکشان پبلک سکول کے ڈائریکٹر عارف بلوچ شامل تھے۔

پہلے سیشن میں موضوع پر انتہائی شاندار بحث رہی جبکہ طلبا و طالبات نے اہم سوالات اٹھائے جن پر مہمانان گرامی نے عالمانہ انداز میں سوالات کے جوابات دیئے اور نوجوانوں کو کتاب دوستی پر زور دیا۔

دوسرا سیشن ‘سماج میں ادب کی اہمیت اور کردار’ پر اوپن مائک ڈیبیٹ تھا جس کے ماڈریٹر الطاف بلوچ تھے جبکہ پینلسٹ میں ملا نعیم پیرجان، عباس حسن اور محمود خان گچکی شامل تھے۔ اوپن مائک مباحثے میں ادیبوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ سامعین نے اپنی رائے کے علاوہ سوالات بھی رکھے جن کا مہمانان گرامی نے مفصل انداز میں جوابات دیئے۔

تیسرا حصہ مشاعرہ تھا جو کہ نوجوان شاعر ‘مرحوم نوید موج’ کو ڈیڈیکیٹ کیا گیا تھا۔ مشاعرے میں بڑے پیمانے پر شعراء نے حصہ لیا اور اپنے اپنے خوبصورت کلام پیش کیئے۔ مشاعرے کی کاروائی عباس بلوچ نے چلائی۔

چوتھا حصہ محفل موسیقی شب کا تھا جس میں بلوچستان کے نامور گلوکار آسمی بلوچ، مسلم حمل بلوچ، استاد پذیر بلوچ، عارف کریم، حمید بلوچ، نعمت گلزار، نذیر گلشیر، حسین بخش لال، نثار عادل، مزمل بلوچ اور حاتر رحمان نے اپنی سریلی آوازوں کے ساتھ محفل کو گرمائے رکھا اور ادبی کلام پیش کیئے۔

دریں اثناء تقریب کے دوران کتابوں کے سٹال بھی لگائے گئے تھے جس میں پاکستان کے بڑے پبلشرز میں شامل فکشن ہاؤس اور علم و ادب پبلشرز کے علاوہ استین اور بانڑی پبلشرز کے سٹال بھی شامل تھے جبکہ بلوچستان کے نامور آرٹسٹ شریف قاضی نے اپنے خوبصورت پینٹنگ بھی آویزاں کیئے تھے۔

لوگوں نے بڑے پیمانے پر کتابیں خریدیں، فکشن ہاؤس کے سیلزمین کے دعوے کے مطابق کتابوں کی اتنی زائد سیل بڑے شہروں میں بھی ممکن نہیں تھی جتنی بلیدہ جیسے دیہات میں ایک دن کی تقریب میں ہوئی جوکہ دیہی بلوچستان کی کتاب دوستی کو آشکار کرتا ہے۔

ادبی میلے کے میزبان اور لائبریری کے فاؤنڈر شہید حاصل رند فاونڈیشن کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ اس تقریب کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو علم و ادب کی جانب راغب کرنا ہے اور بلیدہ میں کتاب کلچر کو پروان چڑھانا ہے جبکہ تقریب کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ بلیدہ کے عوام اس عظیم بدلاؤ کے ہمیشہ سے خواہاں رہے ہیں جوکہ اب لائبریری کے قیام سے یہ عظیم خواب حقیقت میں بدل چکی ہے۔

آخر میں تقریب کے میزبانوں نے ان تمام کرداروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے لائبریری کے قیام سے لیکر تقریب کی کامیابی تک بھرپور ساتھ دیا۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ لائبریری کی ممبرشپ کا آغاز ہو چکا ہے، علم دوست عوام آکر اپنی رجسٹریشن کریں اور کتابوں سے استفادہ حاصل کریں۔