بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3772 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان و رہنماؤں اور کوئٹہ سے انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ کوئٹہ سے گذشتہ دنوں جبری طور پر لاپتہ محمد گل جتک کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی یہ پرامن جدوجہد پر سب سے زیادہ اٹھائی جانے والی انگلیوں کا رخ اس کے مستقبل کی جانب ہوتا ہے کہ اس پرامن جدوجہد کی کامیابی کی صورت میں اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ آج ہم ان کو دیکھ رہے ہیں جو آباد کار اور قابض سامراج کے منبر کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں مگر یہ مصنوعی پہرہ اس وقت خاک میں مل جاتا ہے جب ہم بلوچ عوام سے رجوع کرتے ہیں اور اسی کے باعث سامراج اور آباد کاربڑی تیزی سے بلوچ طبقے سے رابطہ کرکے میل جول بڑھا رہے ہیں، یہ دونوں کی مجبوری ہے کہ بلوچ پرامن جدوجہد پر عقب سے حملہ کرنے کی سوچ رہے ہیں اور باہمی رشتہ، دوستی، مصنوعی ترقی وغیرہ کی بات کررہے ہیں اور بلوچ عوام کو طفل تسلیاں سے رہے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ ہر بلوچ پر یہ فرض ہے ہ وہ اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہاتھ مضبوط کریں ان کے بازیابی کے فلسفہ کو اپنا نصب العین سمجھیں اور ان کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں۔ بلوچ قوم اس کو اپنا فرض سمجھ کر چاپلوس بلوچ طبقے کو بے نقاب کرے، حقیقتاً وی بی ایم پی کا پرامن جدوجہد تن آور درخت بن رہا ہے اس کی آبیاری بلوچ قوم، قلم کاروں، تاجروں، ادیب و دانشوروں غرض ہر طبقے کے مرد و زن اپنے قومی شعور سے اپنے جان کی قربانی دے کر وی بی ایم پی کے اس درخت کو تن آور بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جو سیاسی تنظیمیں یا شخصیات سامراج کی خیرات یا قوت کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں ہم ان پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ چنگاری آگ بن چکی ہے اس کے شعلے جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔
گذشتہ روز وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے سندھ اور بلوچستان کے کارکنان و رہنماؤں نے وی بی ایم پی کے احتجاج کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ وومن ڈیموکریٹ فرنٹ کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ریاستی جبر میں اضافہ ہوا ہے اور اس جبر کا نشانہ مرد نوجوانوں کیساتھ خواتین بھی بن رہے ہیں اس سلسلے کو بند ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قومی سوال گہرا ہوچکا ہے لیکن بندوق اس مسئلے کا حل نہیں ہے اور اس کو سیاسی طور پر حل کرنا چاہیے۔پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں جعلی سیاسی پارٹیوں، مذہبی رجعت پرستوں اور دہشت گردوں کے ذریعے قومی تحریک کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ پارلیمانی سیاست کا بھی تختہ الٹا گیا۔
وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنماؤں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کو اٹھایا گیا ان کو بازیاب کیا جائے، ان کو وکیل اور دلیل کا حق دے لیکن جو عورتیں یہاں بیٹھی ہے ان کی حیثیت کو واضح کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی واقعہ کا مقصد ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ خواتین کو سیاست اور تعلیم سے دور رکھا جائے۔
دریں ا ثناء 30 ستمبر 2019کو کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ محمد گل جتک کے لواحقین نے کیمپ آکر ان کے گمشدگی کے تفصیلات وی بی ایم پی کے پاس جمع کیے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
محمد گل جتک ولد مہیم خان جتک کے لواحقین کے مطابق انہیں 30ستمبر 2019کو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے جتک اسٹاپ، مغربی بائی پاس کوئٹہ سے لاپتہ کیا۔ لواحقین کا کہنا ہے محمد گل جتک کو لاپتہ کرنے والے افراد ایک سفید گاڑی میں آئے تھے جس کے چشم دید گواہ موجود ہے جبکہ اس حوالے سے ایف آئی آر بھی درج کی جاچکی ہے۔