بلوچستان میں خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کے واقعات کے حوالے سے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں پریس کانفرنس کی گئی۔
پریس کانفرنس چئیرپرسن بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن بی بی گل بلوچ نے کی جبکہ اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے۔
بی ایچ آر او چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک ایسے انسانی المیہ سے دوچار ہے جس کے اثرات کی وجہ سے بلوچستان میں رہائش پذیر ہر فرد ڈر، خوف اور پریشانی کے عالم میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دو ہزار نو سے جاری ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل عام کے واقعات وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں لیکن اس فعل پر خاموشی نے بلوچستان کو ایک غیر انسانی صورتحال سے دو چار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے کوئی بھی فرد محفوظ نہیں، مختلف پیشے سے وابستہ افراد، طالب علم، خواتین اور بچے بھی سیکورٹی فورسز کے کاروائیوں میں ماورائے عدالت گرفتار کیے جاچکے ہیں جو ہم سمجھتے ہیں کہ ایک انسانی المیہ ہے جس کی کوئی بھی قانون اجازت نہیں دیتا۔
بی بی گل بلوچ کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین اور ملکی قوانین تمام افراد کو یہ حق فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی آزادی اور سکون سے گزاریں لیکن بلوچستان کے عوام ایک بے چینی اور خوفزدگی کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
بی بی گل بلوچ نے بلوچستان میں خواتین و بچوں کے جبری گمشدگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی سزا کے طور پر خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں، گذشتہ چند دنوں میں مختلف کاروائیوں میں نصف درجن خواتین کو گرفتار کرکے تفتیش کے نام پر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے گرفتار ہونے والے افراد کے اہلخانہ تشویشناک صورتحال کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔
انہوں نے گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران آواران سے خواتین کے حراست میں لیے جانے واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہ بلوچستان کے پسماندہ ترین ضلع آواران کے علاقے ماشی سے سکیورٹی فورسز نے چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے سید بی بی کو حراست میں لیکر نا معلوم مقام منتقل کردیا جبکہ دوران چھاپہ گھر میں موجود دیگر افراد پر تشدد کرکے انہیں زخمی کردیا گیا جبکہ آواران کے علاقے ہارون ڈن سے بزرگ خواتین بی بی سکینہ کو بھی حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا۔ بی بی سکینہ کے گھر پہ چھاپے کے دوران فورسز نے ان کے خاوند پر تشدد کرکے انہیں زخمی کردیا جبکہ ان کے دو کم سن بچے ساجد اور پرویز کو پچیس نومبر کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے اوچ لاکھا ناڑی سے سکیورٹی فورسز نے تیرہ افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کیا تھا جن میں بیشتر خواتین شامل تھی جبکہ آج علی الصبح سیکورٹی فورسز نے آواران کے علاقے زیلگ اور پیراندر سے حمیدہ بنت میر دلبود اور نازل بنت میر درمان کو چھاپے کے دوران حراست میں لیکر نا معلوم مقام پر منتقل کیا۔ نازل بنت میر درمان کو اس سے قبل بھی گرفتار کیا گیا تھا اور تفتیش کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا لیکن ایک مرتبہ پھر انکی غیر آئینی گرفتاری سوالیہ نشان ہے۔
بی بی گل بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آئے روز خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی پہ عالمی اور ملکی اداروں کی خاموشی کی وجہ سے ایک ایسا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جس کے اثرات سے بلوچستان مقتل گاہ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اس عمل پر مزید خاموشی اس کے اثرات کو مزید وسعت دی سکتی ہیں جس کے اثرات مستقبل میں بھیانک روپ اختیار کرسکتے ہیں۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی توسط سے حکام بالا کی توجہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی سنگین صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالیوں پر چپ کا روزہ توڑ دیں اور بلوچ خواتین اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کردار ادا کریں۔
بی بی گل بلوچ نے کہا بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کی مذمت کرتے ہیں اور اس واقعے کے خلاف کل بروز اتوار کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی توسط سے تمام انسانی حقوق کے ممبران، سول سوسائٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف ہونے والی احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرکے انسانی دوست ہونے کا ثبوت دیں۔
بی ایچ آر او چیئرپرسن نے خواتین کی ماورائے عدالت گرفتاری کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپئین چلانے کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن سوشل میڈیا میں ایک کمپئین بھی چلائے گی جس میں تمام سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں سمیت سیاسی پارٹیوں اور طالب علموں سے حصہ لینے کی درخواست کرتے ہیں۔