بلوچ خواتین کو لاپتہ کرنا اجتماعی سزا کا تسلسل ہے – ماما قدیر بلوچ

315

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بلوچستان کے ضلع آواران اور ڈیرہ بگٹی سے خواتین اور بچوں کے جبری گمشدگی کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے آواران کے علاقے ہارون ڈن بی بی سکینہ اور ماشی سے سید بی بی کو حراست میں لینے کے بعد اپنے خفیہ کیمپوں میں منتقل کردیا ہے جبکہ دو روز قبل ڈیرہ بگٹی سے فورسز نے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے خواتین اور بچوں سمیت تیرہ افراد کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کے واقعات اس ظلم و جبر کا تسلسل ہے جو گذشتہ دو دہائی سے بلوچ قوم کیساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جاری رکھے ہوئے ہیں پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے اپنے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ گروہوں کے ہمراہ بلوچ قوم کو اجتماعی سزا کے طور پر لوگوں کو لاپتہ کررہے ہیں۔

واضح رہے ہفتے کے روز بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری رہی جس کیساتھ ہی احتجاج کو 3791 دن مکمل ہوگئے۔

احتجاجی کیمپ میں گذشتہ سال متحدہ عرب امارات اور بعد ازاں پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، مستونگ کے رہائشی نوجوان بلال احمد بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی جبکہ گوادر سے الیاس بلوچ، خیر محمد بلوچ و دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی رہنما ماما قدیر کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی بلوچستان کے حقیقی صورتحال کو بیان کررہی ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔