بلوچستان میں فوج کا راج
تحریر: ہونک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کا بنیادی مسئلہ بلوچ قومی آزادی اور وت واجہی کا ہے۔ بلوچستان پر پاکستانی فوج نے ۲۷مارچ ۱۹۴۸ کو قبضہ کیا تھا یعنی پاکستان کے وجود میں آنےکے چند مہینے بعد کا قصہ ہے، جب پاکستانی فوج نے طاقت کی گھمنڈ پر اور برطانیہ کے پشت پناہی میں بلوچستان کے دارلحکومت قلات پر چڑھائی کی، جسکی کوئی قانونی حیثیت نہیں، گذشتہ ستر سالوں سے بلوچستان میں پاکستانی فوج کے طاقت کی حکمرانی قائم و دائم ہے، جسے بلوچ قوم نے روز اول سے قبول نہیں کیا ہےاور مزاحمت کا راستہ اپنایا ہے۔
قبضے کے جو منفی اثرات ہیں وہ کبھی زائل نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ یہ فطری بات ہے جب کو ئی طاقت کے بل بوتے پر کچھ کرتا ہے، اُس کا ری ایکشن ضرور ہوتا ہے۔ جس طرح سائنس میں ہے کہ ہر ایکشن کا کو ئی نہ کوئی ری ایکشن ہو تا ہے پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچوں نے اپنا ری ایکشن پہلے دن سے دکھایا ہے، جس کی مثال مکران کے گورنر آغا عبدالکریم ہیں جس نے اس ناجائز عمل کے خلاف بغاوت کا اعلان کر کے اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں کا رخ کیا۔ جسے فطری ری ایکشن کہا جاتا ہے، انہیں جھوٹ، فر یب اورقرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اتار کر گرفتار کرکے جیل کردیتے ہیں۔
شہید نواب نوروزخان کے بغاوت میں انکو بھی قرآن کا واسطہ دیکر پہاڑوں سے نیچے اتارتے ہیں اور پھر گر فتار کرلیا جاتاہے، انکے فرزندوں کو انکے آنکھوں کے سامنے پھانسی کے تختے پر لے جاتے ہیں، نواب نوروزخان کہتے ہیں، قرآن بھی لاتے کہ اسے بھی پھانسی دی جائے۔ اس لیئے ایسے بہت سی مثالیں بلوچستان میں پائے جاتے ہیں جس میں پاکستانی جبر کے قصے موجود ہیں۔
ستر کی دہائی میں بلوچستان میں کیا کچھ ہوا ہے وہ تاریخ کے حصے ہیں، بلوچوں کو اٹھاکر قتل کرنا اور حتیٰ کہ ہیلی کاپٹروں سے بلوچوں کی لاشیں پھنیک دیئے گئے ، سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جو تاحال لا پتہ ہیں، ان میں سردار عطااللہ مینگل کے فرزند اسد مینگل اور اسد مینگل کے ساتھی احمد شاہ شامل ہیں جو ابھی تک لاپتہ ہیں۔ پاکستان کے ایک سابقہ فوجی نے کہا تھا کہ وہ تشدد سے شہید ہو چکے ہیں مگر انکی لاشوں کو ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا ہے، ایسے قصے بہت ہیں جس میں پاکستان کے ظلم وستم کے قصے موجود ہیں۔
بیس سالوں سے علی اصغر بنگلزئی کو گرفتارکرکے لاپتہ کیا گیا ہے، مگر اُس خاندان کے افراد آج بھی انکی راہ تکتے رہے ہیں۔ جب علی اصغر بنگلزئی کو رہائی مل جائے گی اسی امید کے ساتھ اپنے دن گذار رہے ہیں ،اسی طرح حافظ سعید بلوچ اور ایسے بلوچ ہیں جو دو دہائیوں سے پاکستان کے اذیت گاہوں میں بند ہیں، ایسے گھر ہیں جو سردیوں کے رات میں اپنے گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے ہیں، ایسا نہیں ہو کہ رات دیر کو کہیں انکے فرزند گھر آئیں اور ہم سوئے رہیں انکو تکلیف ہو جائے انتظار نہیں کریں۔ ایسے ماں باپ بہت ہیں اسی انتطار میں اس دنیا سے رخصت ہوکر جا حقیقی جا ملے ہیں۔
اب ہم اُس باہمت نوجوان سمیع مینگل کا ذکر کرتے ہیں، جس کے حوصلے پہاڑ کی طرح مضبوط ہیں ایک دفعہ اغوا کے بعد پھر گر فتار کر کے لاپتہ کیا گیا جو تاحال لا پتہ ہیں، وہ گذشتہ دس سال سے پاکستانی اذیت گاہوں میں بند ہے، جس کا کوئی حال نہیں۔ اُس کی بوڑھی ماں شال کی سردی میں ماماقدیر کے ساتھ احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے ہیں، راہ دیکھتے دیکھتے سمیع مینگل کے والد محتر م فوت ہو چکے ہیں، اسی امید میں کب پاکستانی فوج اس کے فرزند کو رہائی دیں یا کوئی اُس کے نیک حال اُسے دیتے، مگر دس سالوں میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملا ہے ۔آج تک کوئی پرساں حال نہیں، وہ کس حال میں ہیں زندہ ہیں یا نہیں، لیکن انکی ماں کے حوصلے بہت بلند ییں۔ انکے ساتھ تمام بلوچوں کے حوصلوں کو داد دینا چاہئے اور ماما قدیر جیسے بہادر فرزند کی جو جہد مسلسل کے ساتھ اس دکھ بھری کیمپ میں بیٹھ کر روز کسی نہ کسی کی آنکھوں کے آنسو کو دیکھ کر اپنے درد کو بھول جاتے ہیں۔
ماما قدیر نے ایک جوان اور قابل بیٹے کی قربانی دی ہے، انکا ہمت سلام کے مستحق ہے، اسی کیمپ میں سمیع مینگل کی ماں بیٹھی ہوئی ہے، سمیع مینگل کی راہ دیکھ رہی ہے مگر حکمران اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں جو ان کو سنائی نہیں دیتی۔ انکے نا م نہاد پارلیمنٹ کے قریب احتجاجی کیمپ موجود ہے جس میں بلوچ شہیددوں اور لاپتہ افراد کی تصویریں موجود ہیں جس کو پاکستانی فوج نے گرفتار کرکے پھر لاپتہ کی ہے۔ جن کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی اس بیہودہ عمل پر فوج کوسوال نہیں کرتا ہے کہ کیوں آپ نے اس طرح جبر کے قانوں کو برقرار رکھا ہے؟
آج ہی پاکستانی سپریم کورٹ میں حراستی مرکز کے بارے میں ایک کیس کا سماعت ہوا جس میں نئی ترمیم کے بارے میں بحث تھی اس سے پہلی ان حراستی مرکز کے بارے میں یہ بیان کیا تھا حراست میں لئے گئے لوگوں کو انکے خاندان کے سامنے لاکر انکا ملاقات کر ادیتے ہیں مگر اس بارے میں سپریم کورٹ کے جج خود کہتے ہیں یہ صرف بات تک محدود ہے تو اندازہ ہوگا یہاں فوج کا اثر و رسوخ کتنی ہے۔ کوئی سوال کر نہیں سکتا حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی بے بس نظر آتی ہے۔
اب اس صورتحال میں انسانی حقوق کے ادارے صرف فائل بنانے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں کیا قانون کو برقرار رکھنے والے خود قانوں کے مزاق نہیں اڑا رہے ہیں؟ مگر انسانی حقوق کے قائم ادارے انٹرنیشنلی اور نیشنل سطح پر خاموشی پر سوال کھڑی ہوتی ہے، کیا کچھ ہو رہا ہے سب کچھ دیکھنے کے بعد آنکھیں بند کرکے خاموش نظارہ دیکھ رہے ہیں۔ بلوچوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، بلوچوں کے ہونہار طالب علم ،ڈاکٹرز، وکیل ،استادوں کو لاپتہ کرکے انکے لاشیں پھینکی جا رہی ہے۔
گذشتہ روز نام نہاد قوم پرستوں اور بلوچستان حکومت کے خلا ف کوئٹہ سریاب سے بلوچ مائیں احتجاج کر رہے تھے، گیس کی سہولت دی جائے جو لوگ الیکشن کے دوران ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے نظر آتے تھے مگر اس وقت کوئی نظر نہیں آتا ، اسی طرح پا کستان فوج کے ہاتھوں گرفتار شدہ افراد کے متعلق بات کرتے ہیں لیکن ماما کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں کرتے اُس کے احتجاج میں شریک نہیں ہوتے کیونکہ انکو اپنی نوکری کا خوف ہے کہیں ختم نہ ہو جائے، اب ان کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ وہ بلوچستان کے حوالے سے اس پارلیمنٹ میں کچھ نہیں کر سکتے ہیں خود اور اس عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنائیں ،پاکستان کے پارلمنٹ بلوچوں کی دکھوں کا درمان نہیں اب لوگوں میں شعور آچکا ہے ۔
دنیا اپنے مفادات کے بنیاد پر کچھ کرتی ہے ، اور مفادات کی دنیا صرف وقت کے ساتھ خاموش ہوکر تماشہ دیکھتی ہے۔ اس لیے یہ اچھی طرح تجزیہ کرنا ہوگا کہ پاکستانی فوج وہ مفاد پرست ہے اپنی مفادات کےلئے کچھ بھی کرتی ہے ۔ مذہبی انتہا پسندی کو آگے لیجانے والے پاکستانی فوج ہے ، پاکستانی دراصل دہشت گردوں کا مجموعہ ہے اس کا ختم ہو نا دنیا کے لئے انتہا ئی لازمی ہے تاکہ دنیا کو جو شدت پسندی کا سامنا ہے اسے روکنے میں کامیاب رہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے خود اعلان کر چکے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کو پاکستانی فوج نے تربیت دی ہے اسی طرح سابقہ فوجی صدر مشرف نے کہا تھا کہ اُسامہ وغیرہ پاکستانیوں کا ہیرو ہیں۔ جنرل حمید گل وغیرہ دنیا کے سامنے عیاں ہیں کہ اس دہشت گرد ملک کے خلاف مہذئب دنیا اپنا کردار ادا کریں ،اس دنیا کی امن کے لئے اہم ضرورت ہے ۔
بلوچوں کو چاہیئے وہ دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف دنیا کو متوجہ کرنے کےلئے ہر ایک اپنا اپنا کردار ادا کر یں تاکہ دنیا کو بلوچستان پر ہونے والے بلوچ نسل کشی کے بارے میں اور اقوام متحدہ کو متوجہ کر سکیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ جو لوگ کئی دہائی سے ٹارچر سیلوں میں بند ہیں انکی بازیابی کےلئے پاکستان پر پریشر ڈالیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔