بلوچستان میں طلبہ یکجہتی مارچ

266

ترقی پسند طلبہ تنظیموں کی ملک گیر اتحاد ‘سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی’ کی جانب سے 29 نومبر کو کوئٹہ میں طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ریولوشنری سٹوڈنٹس فیڈریشن، کنکٹ دا ڈسکنکٹڈ، وومن ڈیموکریٹک فرنٹ، اسٹوڈنٹس لٹریری سوسائیٹی، لاء سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پی ٹی یو ڈی سی، مارکر یونین، بلوچستان ورکرز فیڈریشن اور کوئٹہ کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ نے سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی جن میں جامعہ بلوچستان، بیوٹمز، زرعی کالج، ایس بی کے وومن یونیورسٹی اور لاء کالج کے سٹوڈنٹس شامل تھے۔

مارچ کا آغاز میٹروپولیٹن پارک سے ہوا اور کوئٹہ پریس کلب سے ہو کر دوبارہ میٹروپولیٹن پارک پہنچا جہاں مارچ نے جلسے کی صورت اختیار کی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن مرکزی سیکریٹری اطلاعات کا کوئٹہ میں ہونے والے مارچ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہنا ہے کہ طلبہ نے اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی بھرپور مطالبے کے ساتھ، جامعات میں حراسانی کے واقعات، انتظامیہ کی ہٹ دھرمی، سیکیورٹی اہلکاروں کی تعلیمی اداروں میں مداخلت، فیسوں میں اضافے، وائس چانسلرز کی اجارہ داری، طلبہ کی عدم تحفظ اور جبری گمشدگیوں، ہاسٹلوں کی بندش، جامعات میں یونیفارم کے شرائط اور تعلیم میں بیوپار کی بھرپور مذمت کی۔

طلبہ نے پرزور مطالبہ کیا کہ پینتیس سالوں سے ناجائز طور پر غضب طلبہ نمائندگی کے حق کو بحال کرتے ہوئے یونین کے جلد از جلد الیکشن کرائے جائیں اور طلبہ نمائندگی کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

مارچ میں انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ، مستونگ کے رہائشی لاپتہ بلال احمد کے لواحقین سمیت دیگر نے خصوصی طور پر شرکت کی جہاں انہوں نے طلبہ کے حقوق کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی شکار افراد میں اکثریت طالب علموں کی ہے۔

علاوہ ازیں بلوچستان میں پراونشل ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل، نئے میڈیکل کالجز، ایچ ای سی کوٹہ بڑھانے، مفت اور معیاری میس، ہاسٹلز، جدید لائبریری، جدیدی تکنیکی ریسرچ لیبز، کھیل و ثقافت اور سیر و تفریح کے سہولیات کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔

مارچ میں شریک مزدور یونینز نے طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے طلبہ کے مطالبات کو جائز اور آئینی حق قرار دیا اور حکام پر زور دیا کہ وہ طلبہ کے مطالبات کو تسلیم کریں۔

خیال رہے پاکستان میں طلبہ کے جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور سمیت ملک کے پچاس سے زائد شہروں میں ترقی پسند طالب علموں کی طرف سے یکجہتی مارچ کیے گئے۔

اس مارچ کا اہتمام بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی دو درجن سے زائد ترقی پسند تنظیموں پر مشتمل سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کیا تھا۔ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت کئی ممالک کی جامعات میں پڑھنے والے طلبہ نے بھی طالب علموں کے اس یکجہتی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے نام ایک مشترکہ خط لکھا ہے، جس میں سٹوڈنٹس یونینز پر عائد پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کوئٹہ میں یہ مارچ میٹرو پولیٹن کے سبزہ زار پر منعقد ہوا لیکن مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی اس وقت بدنظمی کا شکار ہو گیا جب بلوچ طلبہ تنظیموں کے نمائندے آپس میں الجھ پڑے اور لاٹھیوں و ڈنڈوں کا استعمال بھی کیا۔

اس تصادم میں دو طلبہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ بی ایس او کے مختلف دھڑے اس تصادم کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔

تصادم کے بعد بی ایس او پجار اور بی ایس او مینگل کے دھڑوں نے مارچ سے علیحدہ ہو کر پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا. جبکہ مارچ اپنے طے شدہ روٹ زرغون روڈ اور جناح روڈ سے ہوتا ہوا واپس میٹرو پولیٹن کے سبزہ زار پہ اختتام پذیر ہوا. جہاں‌ مقررین نے شرکا سے خطاب بھی کیا۔

حال احوال کے رپورٹ کے مطابق مارچ کسی مرکزی انتظام کاری سے محروم نظر آیا جس کے باعث شرکا میں بدنظمی دیکھنے میں آئی، شرکا کی تعداد بھی توقع سے نہایت کم رہی۔

مارچ کے منتظمین نے اس عہد کے ساتھ مارچ کا اختتام کیا کہ یہ کوئی پہلی یا آخری ایونٹ نہیں بلکہ طلبہ یونین کی بحالی اور مطالبات کو منوانے تک جدوجہد جاری رہے گی اور طلبہ کو منظم کرکہ طلبہ تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی۔