بلوچستان میں تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر ہے – بی ایس او تربت

183

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون کے ترجمان سمیر رئیس نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا کہ قوموں کا عروج و زوال نوجوانوں کے مستقبل سے وابستہ ہوتا ہے مگر بلوچستان میں طلباء کا کوئی مستقبل نہیں، نظام تعلیم تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس صوبے میں دنیا کے بہترین کالجز اور یونیورسٹیز ہونی چاہیے تھیں مگر فی الحال ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں کچھ تعلیمی ادارے موجود ہیں، مگر ایک غریب کا بچہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جوتوں کی پالش اور کسی گیراج یا ہوٹل میں کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے گھر میں غربت دیکھ کر گھر والوں کا سہارا بننا چاہتا ہے۔ کیا ان بچوں کا حق نہیں کہ یہ بھی ڈاکٹر اور انجینئر بنیں؟

سمیر رئیس کا کہنا ہے کہ دنیا نے آسمان کی بلندیوں کو چھولیا ہے جبکہ بلوچستان کا تعلیمی معیار ابھی تک تختی اور سلیٹ تک محدود ہے۔ بلوچستان کے روشن ستاروں کا برباد مستقبل ایک حساس اور سنجیدہ شخص ہی دیکھ سکتا ہے، مگر افسوس ہمارے حکمران بلوچستان کے طلباء کی بربادی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر آج بھی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے تو مستقبل میں بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے بچوں کو بھی بڑے پوزیشنوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نظام کو بدلنا ہوگا ورنہ آئندہ نسل بھی گیراج میں بیٹھ کر حکمرانوں کی گاڑیوں کی مرمت کرتے ہوئے یا ان کے جوتے پالش کرتے ہوئے یا ہوٹلوں میں میزوں پر چائے رکھتی ہوئی نظر آئے گی اور شاید یہ انقلاب کی صبحِ نو یا پھر بلوچستان کے نوجوانوں کی تباہی کی علامت ہوگی۔