برطرف گورنمنٹ ٹیچرز ایکشن کمیٹی ضلع کیچ کی ڈپٹی فوکل چیئرپرسن شگفتہ بلوچ، راشیدہ بلوچ اور دیگر اراکین کا تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی سیکرٹری تعلیم ثانوی بلوچستان نے سابق ایکٹنگ ڈی ای او کیچ کی غلط رپورٹ کی بنیاد پر 20 اگست کوضلع کے 114 ٹیچرز کو الٹرنیٹ ٹیچرز رکھنے کی پاداش میں برطرف کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج اور مطالبے پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے ڈپٹی کمشنر کیچ کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنائی، ہم 109 ٹیچرز انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، ڈی سی کی عدم موجودگی پر انکوائری کمیٹی کی سربراہی اسسٹنٹ کمشنر خرم خالد نے کی، کمیٹی کو ایک سال کی حاضری رپورٹ اور صوبائی سیکرٹری تعلیم کے شوکاز نوٹس کے جوابات جمع کردیئے، اے سی تربت خرم خالد کی کمیٹی نے سفارشات مرتب کیے کہ ٹیچرز کو سروسز رولز اور بیڈا ایکٹ قانون کے برعکس برطرف کردیئے گئے ہیں اسلئے انہیں بحال کرنا چاہہے مگرڈی سی کیچ، ہمارے فریق سابق ایکٹنگ ڈی ای او اختر ایاز کے بہکاوے میں آکر اے سی خرم خالد کی رپورٹ تبدیل کرکے صرف 58 ٹیچرز کو بحال کرنے کی سفارش کی گئی جس میں ایک مرتبہ پھر سچائی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی گئی اور سفید جھوٹ پر مبنی رپورٹ تیار کر کے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور چیف سیکریٹری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کے واضع شواہد موجود ہیں کہ انکوائری میں برطرف ہونے والے 109 ٹیچرز موجود تھے جن کی موجودگی کی تصدیق اسسٹنٹ کمشنر خرم خالد اور ان کی انکوائری کمیٹی کے اراکین کر رہے ہیں، اسسٹنٹ کمشنر تربت کی مرتب کردہ سرکاری غیر جانبدارانہ رپورٹ کو شاطر دماغی سے ہیر پھیر کرنے کی گھناؤنی کوشش کی فوری تحقیقات کی جائے، اور شفاف انکوائری کرائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
ٹیچرز ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کا کہنا تھا کہ موجودہ کارروائی کے نتیجے میں 109 خاندانوں کے چولھے گل ہوگئے ہیں اور چار مہینے ہوگئے ہیں فاقوں کی نوبت آنے پر حق اور انصاف مانگنے پر برطرف اساتذہ کومختلف حیلے بہانوں سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی نوکریاں بلا جواز چھن جانے پر آواز کیوں اٹھاتی ہیں؟ افسوس کا مقام ہے کہ ظلم، جبر، نا انصافی اور ماورائے بیڈا ایکٹ اور سروس رولز کے ایک تو ملازمتیں چھین لی جاتی ہیں اور گھروں کے چولھے بجھائے جاتے ہیں اور حق کے لیے بولنے پر بھی قدغن ہے، انسانیت اور خواتین حقوق کے علمبردار اس زیادتی پر چھپ کا روزہ توڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ آج تک ہمیں یہ بات واضع طور پر نہیں بتائی جا رہی ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے اور ہمارے بچوں کو کس قانون کے تحت نان شبینہ کا محتاج بنایا گیا ہے، اختر ایاز اپنے ہواریوں کی مرتب کردہ رپورٹ کو آج تک ثابت نہیں کر پایا ہے وہ صرف اس لیے کہ برطرف اساتذہ کو اس جرم کی سزا دی گئی ہے جو انہوں نے کیا نہیں ہے اور انہیں فرض شناسی اور ڈیوٹی دینے کی پاداش میں ملازمت سے نکالا گیا ہے جو اس ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ گھناؤنا کھلواڑ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے چیف جسٹس ہائی کورٹ بلوچستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے دست بستہ اپیل کرتے ہیں ملکی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ایسی ہیرا پھیری پر سو موٹو ایکشن لیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی ستم ظریفی اور آئین سے ساتھ کھلواڑ اور کیا ہوگا کہ انہیں ڈیوٹی نہ دینے کے من گھڑت الزام میں برطرفی کی اطلاع بھی دوران ڈیوٹی دی گئی تھی، اگر ہم نے الٹرنیٹ ٹیچرز رکھے تھے تو پھر کیوں تنخواہیں بند نہیں کی گئیں اور تعلیمی افسران نے اپنے سکول دوروں پر حاضری رپورٹ پر غیرحاضری نوٹ کیوں نہیں لکھا تھا، نہ ہی کبھی ضلعی تعلیمی افسران نے کوئی شوکاز نوٹس جاری کیا ہے، نہ ہی معطلی کے دوران کوئی انکوائری کمیٹی بنائی گی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی انکوائری کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ کہ وہ انکوائری آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کی جائے نا کہ اختر ایاز اور ڈپٹی کمشنر کی من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی بنیادوں پر ہو۔
برطرف ٹیچرز نے مزید کہا کہ اس ظلم پر مبنی کارروائی کے نتیجے میں آج سینکڑوں خاندانوں کے ہزاروں افراد نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں، بچوں نے تعلیم ادھورا چھوڑ دیا ہے اور یہ ٹیچرز کے پیشے کی بد ترین تذلیل اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اگر ہمیں ہمارے حق سے محروم کرنے کا گھناؤنا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو احتجاج جاری رکھیں گے، اگر چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ بلوچستان انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھر دسمبر کو ہائی کورٹ بلوچستان میں پٹیشن داخل کریں گے اور اپنے حقوق کی اس جنگ میں سیاسی و سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں ہمیں انصاف فراہم کرنے کیلئے اپنا اخلاقی کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ بلا جواز بر طرف اساتذہ کو اسسٹنٹ کمشنر تربت خرم خالد کی انکوائری رپورٹ اور سابق کمشنر مکران شہید محمد طارق زہری کی سفارش پر بحال کئے جائیں اور مس گائیڈ کرنے اور انسانی حقوق کی اس بڑی پامالی پر مرتکب افسران کیخلاف تادیبی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ کوئی محکمہ تعلیم اساتذہ کی مقدس پیشہ کو بدنامی کا سبب نہ بنے۔