بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے شہید بالاچ خان مری کے برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بالاچ خان مری کا کراد بلوچ قومی تحریک آزادی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے بلوچ قومی آزادی کے لئے دشمن کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا اوراسی مزاحمتی سفر میں اپنے سر کی قربانی پیش کی۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ گوریلا لیڈر اور انقلابی رہبر شہید میربالاچ خان مری اپنے والد او ر عظیم آزادی پسند رہنما نواب خیربخش مری اور مری قبائل کے ہزاروں افراد کے ہمراہ افغانستان جلاوطن ہوئے اور وہاں سے روس چلے گئے جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ افغانستان اور روس میں ایک بلوچ سفیر کی طرح کام کیا اور 1993 میں اپنے والد اور قبائل کے ہمراہ جلاوطنی ختم کرکے واپس بلوچستان آئے۔ یہاں بھی بلوچ قومی آزادی کے لئے سرگرم رہے۔ 1999 میں برطانیہ چلے گئے اور وہاں بلوچ قومی سوال کے منطقی انجام کے لئے مختلف فورمز پر کام کیا، دوسرے محکوم قوموں کے نمائندوں سے روابط قائم کئے۔
انہوں نے کہا کہ شہید بالاچ خان مری پاکستانی پارلیمانی نظام پر قطعاً یقین نہیں رکھتے تھے لیکن 2002 کے انتخابات میں علامتی طورپر حصہ لیا اور تقریب حلف برداری کے دوران پاکستان کے بجائے بلوچستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور اپنی تقریر میں کہا ”پنجاب کے زیر تابع اسمبلیاں محکوم اور مظلوم قوموں کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتیں کیونکہ مرکزی اسمبلی میں بلوچستان، سندھ اور سرحد کے ممبران کی قلیل تعداد پر پنجاب کی عددی اکثریت حاوی ہے۔ مقبوضہ بلوچستان و دیگر دونوں صوبے مشترکہ طور پر پنجاب کی مرضی کے بنا کوئی بل پاس کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ایسے اسمبلیوں سے مظلوم و محکوم قوموں کی تقدیر بدلنے کی امید لگانا قوم اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔“ بلوچ آزادی کے عاشق بالاچ خان مری نے کٹھ پتلی اسمبلی کے صرف دو سیشن میں شرکت کی اور زیادہ وقت عملی جدوجہد اور قومی محاذ کو منظم کرنے میں صرف کی۔
انہوں نے کہا بالاچ خان مری زبانی کلامی قوم پرستی کے بجائے عملی قوم پرست تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دنیا کی تحریکوں کے مطالعہ سے یہ اخذ کرچکے تھے کہ پاکستان کے خلاف جدوجہد میں عسکری محاذ انتہائی لازمی ہے۔ انہوں نے محض بیان بازی اور قوم کے جذبات سے کھیلنے کے بجائے عملی جدوجہد میں ایک سرمچار بن کر پہاڑوں کا رخ کیا۔ کئی سالوں تک پاکستانی افواج کے خلاف برسر پیکار رہے۔
ترجمان نے کہا کہ بالاچ خان مری یہ جانتے تھے کہ پاکستان بلوچ قومی طاقت و قوت کو کمزور اور منتشر کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہا ہے، جن میں قبائلی جنگیں نمایاں ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے نواب اکبر خان بگٹی سے مل کر ”ڈوئی“ کے مقام پر مری بگٹی دیرینہ قبائلی جنگ و جدل کا خاتمہ کرا دیا اور مری بگٹی قبائل کو آپس میں شیر و شکر کرایا۔
انہوں نے کہا میر بالاچ خان مری سے بلوچ قوم کی توقعات نہایت بلند تھیں لیکن ایک عملی انسان کے لئے دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے۔ بالاچ کی جدوجہد نے دشمن کو بھاؤلا بنا دیا تھا۔ دشمن کی افواج اور خفیہ ادارے سرتوڑ کوشش کررہے تھے کہ کسی بھی قیمت پر بالاچ خان کی زندگی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ بالآخر دشمن اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب ہوا اور بلوچ قوم کے عظیم فرزند شہید ہوگئے۔
ترجمان نے کہا کہ بالاچ سرزمین سے عشق، عمل، حرکت اور جانفشانی کا دوسرا نام ہے۔ گوکہ بالاچ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن بالاچ خان کے افکار اورعملی جدوجہد آج لاکھوں بلوچوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ بالاچ آج بھی زندہ ہے۔ بالاچ کا مشن زندہ ہے۔ بالاچ کے عملی پیروکار وطن اور وطن سے باہر لاکھوں کی تعداد میں سرزمین کی آزادی کے لئے کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ آج بارہویں برسی کے موقع پر میر بالاچ خان مری کرسرخ سلام پیش کرتا ہے اور یہ عہد کرتاہے کہ بلوچ قوم اپنے شہدا ء کا وارث ہے اور ان کا مشن منزل پر پہنچا کر دم لے گا۔