بالاچ خان مری
دی بلوچستان پوسٹ انقلابی ورثہ
بلوچ تحریک آزادی کے سرخیل، بابائے بلوچ مزاحمت، ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما سردار خیربخش مری کے دست راست ( آزادی پسند تنظیم) ’’بلوچ لبریشن آرمی‘‘ کا سربراہ سمجھا جانے والا بلوچ گوریلا لیڈر اور انقلابی رہبر شہید سپہ سالار نوابزادہ میربالاچ مری17 جنوری 1966 کو بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقہ مری بلوچوں کے ہیڈکوارٹر کوہلو کاہان میں پیدا ہوئے۔
بلوچ سپوت بالاچ مری نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے ایک گرائمر سکول سے حاصل کی اور 70 کی دہائی میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں بلاخصوص نواب مری اور مری قبیلہ کے ہزاروں لوگوں کے ہمراہ افغانستان میں جلاوطنی اختیار کی اور وہاں سے ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی حصول کیلئے اس وقت کے بلوچ قومی تحریک سے ہم آہنگی رکھنے والے دوست ملک روس چلے گئے اور ماسکو کے ایک یونیورسٹی سے کمیونیکشن اور ماسٹرز ان انجنئیرنگEngineering کی ڈگری حاصل کی۔ افغانستان اور روس میں بلوچ نوجوانوں کے سفیر مانے جانے والے شہید نوجوان بلوچ رہنما طویل جلاوطنی کے بعد اپنے بزرگ والد اور قبیلے کے ہزاروں لوگوں کے ہمراہ 1993 کے آغاز میں افغانستان سے واپس اپنے آبائی سرزمین بلوچستان تشریف لائے اور 7 سال کے دورانئیے میں انہوں نے سیاسی پلیٹ فارمز سے بلوچ جدوجہد کو آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کی اور بلوچ قومی تحریک کی انٹرنیشنل سطح پر پزیرائی کو اہمیت کا حامل سمجھ کر بین الاقوامی اداروں کے سامنے بلوچ قومی سوال کو اجاگر کرنے کی غرض سے 1999 میں برطانیہ چلے گئے اسی دوران جسٹس نواز مری قتل کیس میں ملوث ٹھہرائے گئے لیکن تادم تحریر اس کیس کا نہ تو فیصلہ ہوسکا اور نہ ہی شہید سالار اور ان کے بزرگ والد یا کسی بھی شخص پر یہ کیس ثابت ہوا ہے۔
بلوچ قوم کا خیال ہے کہ سیاسی انتقام کی بنا پر جسٹس قتل کیس میں نواب مری اور ان کے صاحبزادوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ’’تاریخ کے بالاچ ‘‘ کو امر کرنے والے شہیدِ سالار بالاچ مری نے دوران جلاوطنی ’’ سندھی بلوچ فورم‘‘، ’’بلوچستان ایکشن کمیٹی یوکے‘‘ اور ’’بلوچ رائٹس کمیشن‘‘ کی نمائندگی حاصل کی اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ مسئلے کو بھر پور انداز میں اجاگر کیا۔ لندن میں جلاوطنی کے ایام میں شہید گوریلا لیڈر نے برطانیہ، امریکہ، سویڈن سمیت دیگر یورپی اور خلیجی ممالک میں مقیم آزادی پسند بلوچ رہنماؤں و کارکنوں سے ’’کونسل فار انڈپنڈینٹ بلوچستان‘‘ کے قیام کی تجویز دی لیکن مناسب وقت کے انتظار کو ضروری سمجھ کر اس کا اعلان اس وقت نہ ہوسکا۔ ’’بلوچ انقلابی‘‘ کی جلاوطنی کے ایام میں ان کے حامیوں نے 2002کے عام انتخابات میں کوہلو، کاہان کے صوبائی نشست پر ان کے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے۔ شہید بالاچ مری کے عدم موجودگی اور ان کے مخالفین کو سرکاری حمایت حاصل ہونے کے باوجود انہیں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی، چونکہ دوران جلاوطنی شہید کو جسٹس نواز مری قتل کیس میں ملوث قرار دیا گیا تھا اس لئے انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں قبل از گرفتاری ضمانت جمع کرادی اور چار سالہ جلاوطنی کے بعد بلوچستان تشریف لائے اور اپنے حامیوں کے ایک جلوس کی شکل میں بلوچستان اسمبلی کے حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے حلف برداری کی تقریب کے دوران پاکستان سے وفاداری کے بجائے بلوچستان سے وفاداری کا نعرہ بلند کیا جس پر نہ صرف ایوان بلوچستان میں کھلبلی مچ گئی بلکہ اسلام آباد کے شیش محلوں میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں بھی ایک جھٹکا سا آیا۔ قومی آجوئی کیلئے پارلیمنٹ کے مراعات کو خیرباد کہنے والے بالاچ مری نے بلوچستان اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران واضح لفظوں میں کہا کہ ’’پنجاب کے زیر تابع اسمبلیاں محکوم اور مظلوم قوموں کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتیں کیونکہ مرکزی اسمبلی میں بلوچستان، سندھ اور سرحد کی ممبران کی قلیل تعداد موجود ہے جبکہ پنجاب عددی اکثریت میں سب پر حاوی ہے مقبوضہ بلوچستان و دیگر دونوں صوبے مشترکہ طور پر پنجاب کی مرضی کے بنا کوئی بل پاس کرنے کے اہل نہیں ایسے اسمبلیوں سے مظلوم و محکوم قوموں کی تقدیر بدلنے کی امید لگانا قوم اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘
آزاد بلوچستان کا خواب دل میں لئے اپنی سرزمین پر فدا ہونے والے عظیم ہیرو میر بالاچ مری اسمبلی کے صرف دو سیشن میں شرکت کرنے کے بعد ممبر ہوتے ہوئے اسمبلی اجلاسوں سے یکسر غیر حاضر رہے اسی دوران شہید انقلاب کو ’’مسلم لیگ ق‘‘ میں شمولیت کیلئے بھاری مراعات اور اگلی نشستوں تک کی پیشکشیں کی گئیں مگر بلوچ قومی آجوئی کے موقف پر اٹل بلوچ رہنمانے ہمیشہ بلوچ قوم کی عظیم مقصد کو ذاتی مفادات سے زیادہ ترجیح دی اور کئی مواقع پر انہوں نے اسمبلی کی نشست کو ’’ٹشو پیپر‘‘ سے تشبیہہ دے کر اس کی اہمیت کو نہایت ہی کم شے بیان کیا حالانکہ قوم پرستی کے دعویدار دیگر رہنماؤں کے سامنے اسمبلی نشست کو قومی آزادی سے بڑھکر ترجیح دی جاتی ہے مگر بلوچ کارواں کی شمع فروزاں کرنے والے بلوچ گوریلا لیڈر شہید بالاچ چونکہ دعویداری کے بجائے حقیقی قوم پرست رہنما تھا اس لئے انہوں نے اسمبلی نشست، پرکشش مراعات اور عیش و آرام کی زندگی کو ٹھکراکر اپنے آج کو بلوچ قوم کے کل کے لئے قربان کرنے کو ترجیح دے کر پہاڑوں کا رخ کیا جہاں پر بلوچ سرمچار کئی سالوں سے دشمن افواج کے خلاف برسر پیکار تھے بلوچ قومی آجوئی کیلئے عیش و آرام کو چھوڑ کر پرخطر راہوں کا انتخاب کرنے والے بالاچ مری جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ، فہم و فراست کے مالک، اپنے دھرتی کے جذبے سے سرشار عظیم گوریلا لیڈر کی قیادت نے نہ صرف بلوچ سرمچاروں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ بلوچ قومی تحریک کو ایک جدید سائنسی انداز میں جاری رکھنے میں اہم کردار اد اکیا۔
بلوچ قومی آجوئی کے جوانسال رہنما بالاچ مری نے اپنے آبائی علاقہ پہنچتے ہی سب سے پہلے مری بگٹی دیرینہ خونریز تنازعہ کے تصفیے کو ضروری سمجھا اور وہ یہ درد لئے جب نواب بگٹی کے پاس پہنچا تو نواب صاحب نے نہ صرف حامی بھر لی بلکہ اس مسئلے کے حل کیلئے بگٹی قبائل کی طرف سے تمام تر اختیارات اپنے سیاسی جانشین نوابزادہ براہمدغ بگٹی کے سپرد کیے اور دونوں نوابزادگان اور قبائلی معتبرین کی خواہش پر اس تنازعہ کے حل کیلئے مری بگٹی سرحدی علاقہ ’’ڈوئی‘‘ کے مقام کو چنا گیا اور چند ہی دنوں کے اندر اندر شہید سپہ سالار نوبزادہ بالاچ مری اور موجودہ آزادی پسند بی آر پی کے سربراہ نوابزدہ براہمدغ بگٹی کی قیادت میں ’’ڈوئی‘‘ کے مقام پر مری بگٹی دیرینہ قبائلی جنگ و جدل کا خاتمہ کردیا گیا اور مری بگٹی آپس میں شیر و شکر ہوگئے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے اس سے پہلے بھی 70 کی دہائی میں شروع ہونے والی مری بگٹی قبائلی خونریز جنگوں کے خاتمے کیلئے مرحوم جنرل شیرو مری اور نواب بگٹی کی قیادت میں ایک عظیم اور تاریخی جرگہ نے ’’سارت آف‘‘ (مری علاقہ) میں تمام تصفیہ طلب مسائل حل کئے تھے۔ لیکن کئی دہائی گزرنے کی وجہ سے اس فیصلے کے بعد کئی چھوٹے موٹے جھگڑوں نے قومی جنگ کی شکل اختیار کی تھی مگر نواب مری اور نواب بگٹی کی ذاتی خواہشات پر نوابزادگان کی سربراہی میں ان مسائل کے حل کیلئے ایک اور قومی جرگہ نے آپس کے تمام معاملات کو ختم کرکے قوم کو آپس میں متحد کیا مری بلوچوں کی بلوچ قومی تحریک سے دیرینہ وابستگی اور قومی آجوئی کی تحریک میں ان کا کردار کسی تعارف و تعریف کا محتاج نہیں مگر اس قومی جرگہ اور قومی مسائل کے حل نے بگٹی بلوچوں کو بلوچ کارواں کے قریب تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا بگٹی بلوچوں میں چونکہ اس سے قبل قابض پاکستان کے خلاف شکایات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا قابض پاکستان سے دوریاں بڑھ رہی تھیں اور کئی سالوں کے بعد بگٹی بلوچوں میں بلوچ قومی تحریک اور قومی آجوئی کے رجحانات میں اضافہ ہورہا تھا مری اور بگٹی بلوچوں کے آپس کی اتحاد نے سنگ میل کا کردار ادا کیا شہید بالاچ مری چونکہ ہمہ وقت مری علاقہ اور شہید نواب بگٹی ڈیرہ بگٹی میں موجود تھے اس لئے وقتاً فوقتاً اہم قومی مسئلوں پر آپس میں بیٹھ کر گفت و شنید کرتے رہتے اور بلوچ قومی تحریک کو مزید کامیابی کی راہ پر ڈالنے کیلئے بحث و مباحثہ کرتے رہتے اس دوران نواب بگٹی اور بالاچ مری بلوچ مزاحمتی تحریک کے سرخیل شمار کئے گئے نواب بگٹی واضح کرچکے تھے کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کردی گئی تو اس مرتبہ وہ جنگ کی کمان خود کریں گے دیکھتے ہی دیکھتے معاملہ بگڑتا گیا اور پورا بلوچستان میدان کارزار کا منظر پیش کرنے لگا۔ گوکہ حکومت نے بدیسی پریس اور اپنے زرخریدوں کے ذریعے بلوچ قومی تحریک کی غلط تشریح کرنے کی حتی الامکان کوشش کی مگر بلو چ پریس اور غیرملکی ذرائع ابلاغ باالخصوص ’’بی بی سی‘‘ نے حکومتی تمام دعوؤں پر سے پردہ چاک کر نے میں اہم کردار ادا کیا۔ ابتدا میں نواب صاحب کے ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی 17 مارچ 2005 کو ڈیرہ بگٹی میں ان کے رہائش گاہ پر سینکڑوں گولے برسائے گئے اس کاروائی میں نواب صاحب خود تو محفوظ رہے مگر کئی درجن نہتے، سول بلوچ اور اقلیتی برادری کے لوگ شہید و زخمی ہوگئے۔
بلوچ مزاحمتی تحریک کی ہر سطح پر بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ریاستی اداروں کے خلاف روز بروز بڑھتے واقعات کے رد عمل میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر پوری ریاستی مشینری استعمال کرکے نواب بگٹی کو ڈیرہ بگٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا نواب صاحب نے پیران سالی میں ڈیرہ بگٹی کے محلات کو چھوڑ کر پہاڑوں میں روپوش بلوچ مزاحمت کاروں کی کمان سنبھالی چند وقت تک ڈیرہ بگٹی کے قرب وجوار میں قیام کرنے کے بعد ’’ڈاڈائے بلوچ‘‘ نے مری علاقے میں سکونت اختیار کی۔ کوہستان مری کے پہاڑی سلسلے ڈیرہ بگٹی سے نسبتاً زیادہ محفوظ تصور ہوتے ہیں نواب بگٹی کی ڈیرہ بگٹی سے نکل کر بلوچ سرمچاروں کو کمان کرنا قبضہ گیر حکمرانوں کو ہر گز گوارا نہ تھا اور بالاخر 26 اگست 2006 کو مری علاقہ تراتانی کے مقام پر ایک بہت بڑی فوجی کاروائی کے بعد حکومتی سطح پر نواب صاحب کے شہادت کی خبر آئی اس واقع میں کئی فوجی اعلیٰ عہدیدار اور سپاہی بھی مارے گئے ہیں۔ شہید کی شہادت کے ردعمل میں بلوچستان بھر میں مظاہروں، جلاؤ، گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہوا۔ کوئٹہ جیسے بڑے شہر میں کرفیو نافذ کیا گیا چند دنوں بعد ایک تابوت کو دفن کرکے حکومتی سطح پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ نواب صاحب کی جسد خاکی کو غار سے نکال کر دفن کیا گیا مگر نہ تو وہ تابوت ذرائع ابلاغ کے کسی نمائندے کے سامنے کھولی گئی اور نہ ہی بلوچ قوم کا کوئی بااعتماد شخص اس بات کی تصدیق کرسکتا ہے کہ واقعی اس تابوت میں عظیم بلوچ رہنما کی جسد خاکی موجود تھی اس لئے بلوچ حلقے ابتک اس خبر کو مبہم قرار دے رہے ہیں۔
نواب بگٹی کی شہادت کے واقع کے بعد بلوچ قومی تحریک کی کمان کے حوالے سے بلوچ قوم کی نظریں بلوچ قوم پرست رہنما نواب مری کے خیالات اور تصورات پر پورا اترنے والے بالاچ مری پر لگی رہیں اور بلوچ قومی تحریک کو زندہ و جاوداں رکھنے والے بلوچ گوریلا لیڈر نے بلوچ قوم کی توقعات سے بڑھکر بلوچ قومی تحریک کی کمان کی۔ شہری سہولیات اور آرائشوں کو چھوڑ کر پوری زندگی تکلیف دہ پہاڑی سلسلوں میں گزارنے کا عزم کرنے والے بالاچ مری کو بلوچ نوجوان اپنا آئیڈیل تصور کرنے لگے اور بلوچ حلقوں، تنظیمی دفاتر، کالج اور یونیورسٹیوں میں اسے چی گویرا کے نام سے پکارا جانے لگا اور بعض اوقات بلوچ نوجوان ان کے خفیہ ٹھکانوں میں اس سے ملاقات کرکے سیاسی لیکچر لیتے رہے اور سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں نے شہید انقلاب کے زیر کمان مسلح جدوجہد کی ٹریننگ حاصل کی اور بلوچستان کے طول و عرض میں جاری شہری گوریلہ جنگ اور منظم و کامیاب جدوجہد کے پیچھے شہید سپہ سالار کے ٹرینڈ کردہ نوجوانوں کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔
عظیم گوریلا لیڈر بلوچ نوجوانوں اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے بلوچ آزادی پسند فرزندوں کے دلوں میں راج کرنے لگا اور اس بہادر اور عظیم ہستی کی تصاویر ہر بلوچ گھر، مہمان خانہ اور تدریسی کتب کی زینت بنتی گئی کہ اچانک 20 نومبر 2007 کو یہ خبر گردش کرنے لگی کہ بلوچ دھرتی کے فرزندوں کے چشم و چراغ اور بلوچ قومی آجوئی کا روشن سورج ہم سے جدا کردیا گیا۔ 60 سالوں سے مظلوم و محروم قوم کی امیدیں جس عظیم لیڈر سے وابسطہ تھیں اس ہیرو کے اچانک شہادت کی خبر نے ہر بلوچ فرزند کو غم زدہ، نڈھال اور ہر آنکھ کو اشکبار بنا دیا, دل یہ ماننے کو کہاں تیار تھا کہ ہر بلوچ کے دل کی دھڑکن اور بلوچ قومی آجوئی کی زندہ و جاوداں مثال بلوچ دھرتی کو الوداع کر چکا ہے۔
شہید انقلاب کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی مختلف علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تمام بازار منٹوں میں بند ہوگئے پوری بلوچ آبادیوں میں سوگوار ماحول چھا گیا نوجوان ایک دوسرے سے گلے مل کر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ ہر بلوچ فرزند کی یہ خواہش تھی کہ کاش عظیم گوریلا لیڈر شہید انقلاب بالاچ مری جیسے عظیم ہستی کیلئے ملک الموت کوئی نعم البدل قبول کرلیتا تو بلوچ دھرتی کے غیور فرزند ہزاروں جان نثار کردیتے مگر قدرت کا قانون اٹل ہے اس کے حکم کے سامنے ہر شے بے بس ہے۔ بالآخر ماننا ہی پڑا کیونکہ بلوچ آزادی پسند تنظیم ’’بی ایل اے‘‘ کے ترجمان بیبرگ بلوچ اور شہید انقلاب کے بھائی نوابزادہ گزین مری نے عظیم گوریلا لیڈر کے شہادت کے خبر کی تصدیق کردی تھی مگر دیگر ساتھیوں کے سکیورٹی کو ملحوظ خاطر رکھ کر ’’بی ایل اے‘‘ اور نوابزادہ میرگزین مری نے شہادت کے مقام کے بارے میں بتانے سے گریز کیا۔
’’انجمن اتحاد مری‘‘ نے عظیم گوریلا لیڈر کے شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آجوئی کی تحریکیں ایسے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں مگر آخری فتح تک جدوجہد جاری رہے گی۔ بلوچ حلقوں کی ردعمل کے غیض و غضب سے بچنے کیلئے قبضہ گیر حکمرانوں باالخصوص بلوچ قومی قاتل فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے بالاچ مری کی شہادت میں نوابزادہ براہمدغ بگٹی کو ذمہ دار ٹھہراکر اپنی خوانخوار اور قبضہ گیر فوج کو اس واقعہ سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ مگر شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ چند ہی روز قبل اپنے وردی والوں کی ایک بھیڑ کے درمیان کھڑے ہوکر انہوں نے بلوچ قومی استحصال کے راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے تمام قوتوں کو ختم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس حکومتی پروپگنڈے سے متعلق جب ایک غیر جانبدار نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ نے بلوچ تحریک آزادی کے روح رواں اور شہید سپہ سالار نوابزادہ بالاچ مری کے سیاسی استاد اور والد بزرگوار نواب خیربخش مری سے سوال کیا تو آزاد بلوچستان کے حامی ممتاز بلوچ رہنما نے بالاچ مری کو براہمدغ کا آنکھ قراردے کر ریاستی دعوؤں کو یکسر مسترد کردیا۔ اگلے ہی روز نوابزادہ گزین مری اور نوابزادہ حیربیار مری نے بھی اپنے والد کے موقف کو دھراتے ہوئے ریاستی دعوؤں کو جھوٹ اور من گھڑت قرار دے کر ان کی سختی سے مخالفت کی اور نوابزادہ حیربیار مری کا کہنا تھا کہ براہمدغ بگٹی پر نہ صرف اعتماد ہے بلکہ اسے بلوچ تحریک آجوئی کا لیڈر مانتا ہوں اور شہید انقلاب میر بالاچ مری کی شہادت کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تحریک کی کمان براہمدغ بگٹی نے ہی سنبھالی ہے۔ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران نوابزادہ بالاچ مری کو اپنے بھائی سے تشبیہ دے کر ریاستی دعوؤں کو ان کی پست ذہنیت کی علامت قرار دیا تھا۔ انتہائی ذمہ دار شخصیات کے یکے بعد دیگر ے حوصلہ افزاء بیانات کے بعد غاصب حکمرانوں کو مجبوراً خاموش رہنا پڑا۔
عظیم بلوچ گوریلا لیڈر کی شہادت کے واقعے کے بعد بھی حکومتی توقعات کے برعکس بلوچستان کے طول و عرض میں مزاحمتی کاروائیوں میں کمی ہونے کے بجائے مزید شدت پیدا ہوئی۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاستی فورسز جنہیں بلوچ قوم قبضہ گیر فورس سمجھتی ہے کے خلاف ہزاروں کامیاب حملوں کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک، گیس پائپ لائنوں, ریل کی پٹڑیوں اور بجلی کے کھمبوں کے اڑانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کوہستان مری اور ڈیرہ بگٹی میں جنرل مشرف دور میں شروع کی گئی نسل کش فوجی آپریشن کے دوران ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں نے افغانستان میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے افغانستان نے ہر مشکل دور میں بلوچوں کا ساتھ دیا ہے اس سے قبل 70 کی دہائی میں بلوچ تحریک آزادی کے روح رواں بلوچ قومی پیامبر نواب خیر بخش مری کی قیادت میں ہزاروں بلوچ فرزندوں نے دسیوں سال تک افغانستان میں سیاسی پناہ لی تھی۔ قومی آزادی کے جنگوں کے دوران پڑوسی اور دوست ممالک سے سیاسی پناہ لینا ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہا ہے بلوچ چونکہ پاکستان کے وجود اور ایک ریاست ہونے سے انکاری ہیں اور ان کے جدوجہد کا مقصد بلوچ قوم کیلئے ایک آزاد و خود مختار ریاست کا قیام ہے تو ایسے میں پاکستان کا کوئی بھی قانون بلوچ قوم اور ان کے قومی رہنماؤں پر لاگو نہیں ہوسکتا۔