بالاچ، دھرتی کا عشق – شہیک بلوچ

688

بالاچ، دھرتی کا عشق

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بالاچ اپنے نام کی طرح خوبصورت کردار بھی ہے، جو گواڑخ کے مانند بہار کے موسم میں ہماری تحریک کو وہ خوبصورتی دے گیا کہ اس کے بعد بھی اس گواڑخی سرخ سیاہی کو لے کر بلوچ فرزند آج تک فکر بالاچ کو لے کر دشمن کیخلاف اسی بیرگیری جذبے سے لڑ رہے ہیں، جس جذبے سے دھرتی کے بالاچ نے دشمن کوللکارا تھا۔

بالاچ ایک کرشماتی کردار تھا اور ان کے بعد پیدا ہونے والی خلاء نے تحریک کو بیش بہا نقصانات سے دوچار کردیا۔ بالاچ نے جب عملی میدان میں قدم رکھا تو انقلابی اصولوں کی ایک بہترین مثال بن کر تمام علاقائی و قبائلی امتیازات سے بالاتر نیشنلزم کے نظریہ پر سب کو اکھٹا کرنا شروع کردیا۔ وہ ڈیرہ بگٹی گیا اور شہید نواب اکبر خان بگٹی کے دل میں اپنا مقام پیدا کیا پھر اکبر و بالاچ کی وہ اعلیٰ ظرفی کہ تمام قبائلی رنجشوں کو ختم کرتے ہوئے انقلابی اشتراک عمل کو جنم دیا۔

شہید نواب کے بعد بالاچ نے قوم کو یہی پیغام دیا کہ ہمیں شہید نواب کو دفن نہیں کرنا چاہیئے بلکہ یہ وہ زخم ہے جسے ہم نے کبھی بھرنے نہیں دینا بلکہ اس کو تازہ رکھنا ہے۔

بالاچ قبائلی مزاج سے بالاتر تھا اور بابا مری کے انقلابی ورثے کا حقیقی وارث خود کو عملاً ثابت کرکے دکھایا۔ شہید واجہ غلام محمد بھی کافی متاثر ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ بالاچ جیسا شہزادہ ہمیں نرم کشن پر بٹھا کر خود چٹائی پر بخوش بیٹھا ہوا ہے۔ بالاچ کا پیغام عملاً نیشنلزم کا تھا کہ میری دھرتی کا کوئی فرزند کم تر نہیں بلکہ اس جدوجہد میں سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے۔ بالاچ نے اپنے کردار کو ہمیشہ قبائلی مزاج سے دور رکھا کبھی انا پرستی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ تمام روایتی سیاست سے بالاتر انقلابی اصولوں پر چلتے ہوئے انہوں نے دوراندیشانہ کردار اداکیا۔ وہ کبھی اس انتظار میں نہیں رہے کہ لوگ میرے پاس آئیں بلکہ اتحاد کا پیغام لے کر وہ خود گئے اور کامیاب بھی ہوئے۔

انہوں نےانقلابی جدوجہد کے آڑے کبھی اپنے ذات کو آنے نہیں دیا۔ عملی جدوجہد کی سختیوں کے باوجود وہ مزید نکھرتے رہے اور گزرتے وقت کیساتھ دشمن کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ بالاچ کی اصل قدر وقیمت کیا ہے اور تب ہی دشمن نے بالاچ کے نام کے گرد لکیریں لگانا شروع کردیں اور بالاچ کو ہم سے جسمانی طور پر جدا کردیا۔ بالاچ کی جدائی قومی تحریک کے لیے ایک بڑا صدمہ ثابت ہوا کیونکہ بالاچ کے بعد بابا مری نے جن کو بالاچ کی جگہ کام آنے کا کہا تھا، وہ قبائلی مزاج کے تحت فیصلے کرنے والے ایک سطحی کردار ثابت ہوئے اور قومی تنظیم بھی مسلسل بحرانی کیفیتوں سے گذرتی رہی۔ نیشنلسٹ قوتوں میں رابطے ٹوٹ گئے اور الزام تراشیوں و غلط فہمیوں کا انبار لگ گیا۔

وہ بالاچ جس نے شہید نواب کو دفن نہ کرنے کا درس دیا تھا ہم نے اسی بالاچ کے فکر کو سیاسی شور و غل میں دفن کردیا اور ہمارے کردار دن بہ دن مزید بونے ہوتے گئے۔

بالاچ کے بعد بحرانی کیفیت میں ایک بالاچ کا ابھرنا استاد اسلم کی صورت میں ملا جنہوں نے اسی بیرگیری جذبے کو تازہ کردیا۔ استاد نے تحریک میں دوبارہ جذبہ بالاچ کو زندہ کردیا۔

آج جب ہمارے پاس ایک تحریک ہے بالاچ و استاد اسلم جیسے عظیم حوالے ہیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ خود کو مزیدبھٹکنے سے روکنا ہوگا کیونکہ ہمارے بھٹکنے کی ایک بہت بھاری قیمت بالاچ و استاد اسلم جیسے کردار ادا کرچکے ہیں۔ ہمیں بس ان کی روشنی کو لے کر چلنا ہے۔ آج عہد کرنا ہوگا کہ ہم بالاچ کے بیرگیری جذبہ کو لے کر قبائلی و علاقائی سطح سے بالاتر ہوکر تحریک میں اپنا کردار ادا کرینگے۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جہاں تاریخ بالاچ و استاد اسلم کو علاقائی و قبائلی سطح سے بالاتر ہونے پر سرخرو قرار دیگی وہی ہم تاریخ کے بدترین مجرم ہونگے۔ اس تاریخی جرم سے خود کوبچانے اور بلوچ قوم کے آزادی کے لیے ہمیں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔