ايسے اليکشن چاہتے ہيں جس ميں فوج کا کوئی کردار نہ ہو – مولانا فضل الرحمن

245

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے بیان پر ترجمان پاکستان  فوج کے بیان کے درعمل مں کہا ہے کہ فوج غیرجانبدار ادارہ ہے،غیر جانبدار ہی رہنا چاہیے تھا۔ آئی ایس پی آر نے خود ثابت کردیا ادارے سے میری مراد کیا تھی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مولانا فضل الرحمان کےبیان کے جواب میں انہیں فوج پر الزام تراشی کے بجائے الیکشن میں دھاندلی کی شکایت متعلقہ اداروں کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔

گذشتہ شب اپوزیشن اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن  نے سوال اٹھایا کہ میں پوچھتا ہوں آئی ایس پی آر نے کس بنیاد پر بیان دیا؟ آئی ایس پی آر نےخود ثابت کردیا ادارے سے میری کيا مراد تھی ۔ ڈی جی آئی ایس پی آرفوج کےنمائندے ہیں، یہ بیان تو کسی سیاستدان کو دینا چاہتے تھا۔ فوج توغیر جانبدار ادارہ ہے جیسے کہ انہوں نے خود فرمایا۔

سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ اداروں سےتصادم نہیں چاہتے، تمام سياسی جماعتيں اس بات پر متفق ہيں کہ يہ غيرجمہوری اورغير آئينی حکومت ہے۔ ايسے اليکشن چاہتے ہيں جس ميں فوج کا کوئی کردار نہ ہو۔

اس سے قبل پاکستان فوج  کے ترجمان میجرجنرل آصف غفورنے مولانا فضل الرحمان کے بیان پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اپوزیشن اپنے تحفظات متعلقہ اداروں کے پاس لے کر جائیں۔

نجی ٹی وی چینل  سے گفتگو کرتے ہوئے میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ فضل الرحمان سینئر سیاستدان ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ بتائیں کن اداروں کی بات کر رہے ہیں، پاک فوج ایک غیرجانبدار ادارہ ہے۔

ترجمان  نے کہا فوج نےالیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نبھائیں، فوج کی سپورٹ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔ حزب اختلاف اپنے تحفظات متعلقہ اداروں کے پاس لیکر جائیں، انتشار ملک کےمفاد میں نہیں، جمہوری مسائل جمہوری طریقے سے ہی حل ہونے چاہئیں، اب تک حکومتی اوراپوزيشن کميٹيوں ميں اچھا رابطہ رہا ہے۔

 واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے جمعہ یکم اکتوبر کو آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ اداروں کو دو دن کی مہلت دیتے ہیں کہ حکومت کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے ورنہ ہم اگلا قدم اٹھائیں گے۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، پاکستان کے اداروں کو مستحکم اور طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی انہیں غیرجانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں