اسلام آباد پریس کلب: منظور پشتین کو پروگرام کرنے سے روک دیا گیا

199

اسلام آباد پریس کلب نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کا ایک پروگرام آخری وقت پر منسوخ کر دیا اور انہیں مدعو کرنے والے سینئر صحافیوں کا آج ہفتہ تیئیس نومبر کو اس پریس کلب میں داخلہ بھی بند کر دیا۔

اس پیش رفت پر کئی صحافتی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید ناراض ہیں۔ اسلام آباد کے سینئر صحافیوں نے گفتگو کا ایک فورم بنایا رکھا ہے، جس کے تحت پریس کلب کی لائبریری میں ہر جمعے کی شام کسی نہ کسی معروف شخصیت کے ساتھ تفصیلی گفتگو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ فورم اب تک ملک کے کئی نامور اقتصادی ماہرین، عالمی مالیاتی اداروں سے تعلق رکھنے والی شخصیات، سماجی امور کے ماہرین اور سیاست دانوں کو بھی مدعو کر چکا ہے۔

اس فورم کا انعقاد عموماﹰ جمعے کی شام ہوتا ہے تاہم اس مرتبہ اس فورم نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کو گفتگو کی دعوت دی اور اس کے لیے پریس کلب کی لائبریری میں وقت آج ہفتے کی سہ پہر چار بجے کا رکھا گیا تھا۔ تاہم اس گفتگو کے شرکاء کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پریس کلب کی انتظامیہ نے سینئر صحافیوں کے کلب پر داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی پریس کلب کے اطراف میں موجود تھی۔

منظور پشتین کے ساتھ یہ گفتگو کلب لائبریری میں چار بجے شروع ہونا تھی لیکن غیر متوقع اور ناخوشگوار صورت حال کے پیش نظر یہ گفتگو پریس کلب کے سامنے ایک پارک میں پانچ بجے سے کچھ پہلے شروع ہوئی۔ منظور پشتین نے قبائلی اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے حالات پر اظہار خیال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک غدار اور محب وطن کی تعریف ملکی آئین کے تناظر میں کی جانا چاہیے، یعنی جو شہری آئین کی پاسداری کرتا ہے وہ اچھا ہے اور جو نہیں کرتا وہ اچھا نہیں ہے۔ پشتین نے بارودی سرنگوں، قبائلی علاقوں میں جنگ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے دیے جانے والے معاوضوں سے متعلق مسائل، عوامی مشکلات اور گمشدہ افراد سمیت کئی دوسری امور کا تذکرہ کیا۔ تاہم جلد ہی اندھیرا ہو جانے اور روشنی کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گفتگو مختصر کرنا پڑی۔

اسلام آباد پریس کلب میں پیش آنے والے اس واقعے پر صحافی برادری انتہائی ناخوش ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”آج جو کچھ پریس کلب میں ہوا، وہ انتہائی شرمناک واقعہ ہے۔ پریس کلب ایک ایسی جگہ ہے، جہاں کوئی بھی شہری آ کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن اس طرح پروگرام منسوخ کرنا، صحافیوں پر دروازے بند کرنا اور ان سے توہین آمیز سلوک روا رکھنا قابل مذمت ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ صحافی خود ہی آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘

انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے بھی اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

کمیشن سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ نے کہا کہ ملک میں ‘سیلف سینسرشپ‘ اپنے عروج ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہم پروفیسر ظفر عارف کے حوالے سے پریس کلب میں ایک پروگرام کرانا چاہتے تھے اور پروگرام طے شدہ تھا، لیکن پھر کراچی پریس کلب کی انتظامیہ نے عین آخری وقت پر یہ پروگرام منسوخ کر دیا تھا حالانکہ ہم نے اس پروگرام کے لیے کلب کو مالی ادائیگی بھی کر رکھی تھی۔‘‘

اسد بٹ کا کہنا تھا کہ ملک میں اخبارات، ٹی وی اور اب پریس کلب بھی اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہیں، ”کوئی بھی جرأت نہیں کر سکتا، ان کو انکار کرنے کی۔ پریس کلب کی انتظامیہ کیسے یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ فلاں شخص غدار اور فلاں محب وطن ہے۔ آپ کسی کی رائے سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن آپ کو کسی کی رائے کو دبا دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے جب اسلام آباد پریس کلب کی انتظامیہ کو اس واقعے کے حوالے سے فون کیا اور اس کا موقف جاننا چاہا، تو انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں منظور پشتین کے کسی پروگرام کا نہ تو اہتمام کیا گیا تھا اور نہ ہی ایسا کوئی پروگرام منسوخ کیا گیا ہے۔