اسلام آباد پریس کلب نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کا ایک پروگرام آخری وقت پر منسوخ کر دیا اور انہیں مدعو کرنے والے سینئر صحافیوں کا آج ہفتہ تیئیس نومبر کو اس پریس کلب میں داخلہ بھی بند کر دیا۔
اس پیش رفت پر کئی صحافتی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید ناراض ہیں۔ اسلام آباد کے سینئر صحافیوں نے گفتگو کا ایک فورم بنایا رکھا ہے، جس کے تحت پریس کلب کی لائبریری میں ہر جمعے کی شام کسی نہ کسی معروف شخصیت کے ساتھ تفصیلی گفتگو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ فورم اب تک ملک کے کئی نامور اقتصادی ماہرین، عالمی مالیاتی اداروں سے تعلق رکھنے والی شخصیات، سماجی امور کے ماہرین اور سیاست دانوں کو بھی مدعو کر چکا ہے۔
اس فورم کا انعقاد عموماﹰ جمعے کی شام ہوتا ہے تاہم اس مرتبہ اس فورم نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کو گفتگو کی دعوت دی اور اس کے لیے پریس کلب کی لائبریری میں وقت آج ہفتے کی سہ پہر چار بجے کا رکھا گیا تھا۔ تاہم اس گفتگو کے شرکاء کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پریس کلب کی انتظامیہ نے سینئر صحافیوں کے کلب پر داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی پریس کلب کے اطراف میں موجود تھی۔
منظور پشتین کے ساتھ یہ گفتگو کلب لائبریری میں چار بجے شروع ہونا تھی لیکن غیر متوقع اور ناخوشگوار صورت حال کے پیش نظر یہ گفتگو پریس کلب کے سامنے ایک پارک میں پانچ بجے سے کچھ پہلے شروع ہوئی۔ منظور پشتین نے قبائلی اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے حالات پر اظہار خیال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک غدار اور محب وطن کی تعریف ملکی آئین کے تناظر میں کی جانا چاہیے، یعنی جو شہری آئین کی پاسداری کرتا ہے وہ اچھا ہے اور جو نہیں کرتا وہ اچھا نہیں ہے۔ پشتین نے بارودی سرنگوں، قبائلی علاقوں میں جنگ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے دیے جانے والے معاوضوں سے متعلق مسائل، عوامی مشکلات اور گمشدہ افراد سمیت کئی دوسری امور کا تذکرہ کیا۔ تاہم جلد ہی اندھیرا ہو جانے اور روشنی کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گفتگو مختصر کرنا پڑی۔
اسلام آباد پریس کلب میں پیش آنے والے اس واقعے پر صحافی برادری انتہائی ناخوش ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”آج جو کچھ پریس کلب میں ہوا، وہ انتہائی شرمناک واقعہ ہے۔ پریس کلب ایک ایسی جگہ ہے، جہاں کوئی بھی شہری آ کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن اس طرح پروگرام منسوخ کرنا، صحافیوں پر دروازے بند کرنا اور ان سے توہین آمیز سلوک روا رکھنا قابل مذمت ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ صحافی خود ہی آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘