بلوچستان میں گذشتہ دو روز سے خواتین کے جبری گمشدگی کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ضلع آواران سے پاکستانی فورسز نے ایک اور خاتون کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
ٹی بی پی نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق آواران کے علاقے ماشی سے فورسز نے سید بی بی کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے جبکہ فورسز نے گھر میں موجود دیگر افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے اس سے چند گھنٹے قبل آواران ہی کے علاقے ہارون ڈن سے فورسز نے بزرگ خاتون بی بی سکینہ کو حراست میں لیا تھا جو تاحال لاپتہ ہے، فورسز اہلکاروں کے تشدد سے بی بی سکینہ کی خاوند شدید زخمی ہیں جبکہ ان کے بیٹے کو ساجد کو ایک اور نوجوان پرویز ولد صادق کے ہمراہ 25 نومبر کو حراست بعد لاپتہ کرچکے ہیں۔
واضح رہے دو روز قبل ڈیرہ بگٹی کے علاقے اوچ میں لاکھا ناڑی کے مقام سے پاکستانی فورسز نے خواتین اور بچوں سمیت تیرہ افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا تھا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
دو روز قبل ضلع کیچ کے تحصیل تمپ کے علاقے نذر آباد کے رہائشی خاتون نورجہان قومی کا تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستانی فورسز کے اہلکار آئے روز میرے گھر میں آکر میری بیٹی سہیلہ قومی اوربیٹوں کے بارے میں پوچھتے ہیں،سوشل میڈیا میں ہمارے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ ہمارا سرمچاروں سے تعلق ہے اورمیری بیٹی سہیلہ قومی اور بیٹے تربت کیمپ میں آکر سرینڈرکریں ۔
دریں اثناء نورجہان کی بیٹی سہیلہ قومی نے اپنے بیان میں کہاہے کہ مجھے گذشتہ کئی دنوں سے سرکاری اہلکار تنگ کر رہے ہیں اور میرے گھر آکر بار بار میرے بارے میں پوچھ گچھ کر کے چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے میرے گھر میں میری بوڑھی ماں انتہائی پریشان ہے ، مںں ایک نہتی عورت ہوں اور یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوئی ہے جس کی پاداش میں مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے آواران اور ڈیرہ بگٹی سے خواتین کے جبری گمشدگی پر غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم انتظامیہ کی جانب سے تاحال اس حوالے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔