آماچ کے دامن سے بولان کے پہاڑوں تک
تحریر: شہسوار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جہاں بھی کوئی پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے ماں کی یہی خواہش ہوتی ہیکہ وہ اپنے بچے کو ایک اچھا سا نام دے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آنکھوں میں اس کیلئے اچھے اچھے خواب سجاتے ہیں اور اسے اچھی تعیلم دینے کے ساتھ ساتھ زندگی بھر آسودہ رہنے کی دعائیں بھی دیتے ہیں۔
اسی طرح آج سے 25 سال پہلے میں آماچ کے دامن مستونگ میں پیدا ہوا، والدین نے میرا نام شہسوار رکھ دیا، نام رکھنے کیساتھ انہوں نے یہ تصور کیا تھا کے ہمارا شہسوار وطن کا شہسوار بنے گا، ہر حال میں وطن کا وفادار رہے گا۔
وقت گذرتا گیا، دن بدلتے گئے، مجھے قریبی ایک پرائیوٹ سکول میں داخل کیا گیا، وقت کے ساتھ ساتھ مجھے غلامی کی بو محسوس ہونے لگی، غالباً مجھے یاد ہے جب 2004 میں ہم گھر میں ایک تصویروں کی ایلبم دیکھ رہے تھے، بڑے بھائی نے مجھے ایک مخصوص تصویر دکھائی اور کہنے لگا یہ ہمارے اس دور کا تصویر جب ہم بی ایس او میں تھے، تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کیا ہے خیر بھائی نے بھی کچھ بریف کیا اور یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گیا، جب بھی میں فارغ رہتا تو اسی لفظ کے پارے میں ریسرچ کرتا گیا، آخر وہ دن مجھے یاد ہے 26 اگست2006 اتوار کا دن تھا، اس دور میں کوئی موبائل وغیرہ نہیں کے کوئی خبر جلد ہی پہنچ جاتی، ہمیں دن کو 12 بجے خبر ہوئی کے عظیم رہنما نواب اکبر خان بگٹی کو ریاستی فوسسز نے شھید کیا ہے تو اسی خبر کیساتھ بلوچستان میں ایک آگ لگی، اسی طرح مستونگ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ اسی وقت مجھے اصل حقیقت سمجھ آگئی کہ بی ایس او کیا ہے اور ہم کون ہیں۔
اسی طرح ایک سنگت تھا جس کا نام شیر احمد تھا، بی ایس او آزاد کا ایکٹو سنگت تھا، وہ مجھے بھائی جیسا سمجھتا تھا، وہ میرا دوست بن گیا اور جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تھی تو وہ مجھے آزادی کا درس دیا کرتے تھے، یہ سب میں غور سے سنتا تھا، ایک دن سنگت ثناء بلوچ سے میری ملاقات ہوئی جب وہ بی ایس او ( آزاد )کے ایک فنکشن میں آئے ہوئے تھے، اسی طرح وقت گذرتا گیا، ایک دن یہ خبر ملی کے سنگت ثناء بلوچ اغواء ہوئے ہیں، اس بات کو 2 سال سے زائد عرصہ گذر گیا اور سردیوں کے دن تھے، یہ خبر ملی کے سنگت ثناء ہم سے جدا ہوگئے ہیں، یہ سارے سوالات میرے ذہن میں تھے، میں روز خود سے یہ سوالات پوچھتا تھا، ہمارے ساتھ کیوں ایسا ہو رہا ہے؟
جب میں نے میٹرک پاس کی اور ایف ایس سی کرنے کیلئے میں کوئٹہ آیا میرا داخلہ سائنس کالج کوئٹہ میں ہوا اور یہاں میری ملاقات بی آر ایس او کے دوستوں سے ہوا، باقاعدہ میں پروٹیسٹ وغیرہ میں بھی حصہ لینے لگا، جب میں نے ایف ایس سی کلیئر کی تو میں اپنے آرگنائزیشن کا سینٹرل کمیٹی ممبر بن گیا۔ جب وقت سخت ہوتا گیا بہت سے سنگت شہید ہوئے اور اسی طرح میری بھی خبر دشمن کو لگی، کئی مرتبہ میرے اوپر ریڈ لگتا گیا، مگر دشمن کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
خیر کچھ عرصے کیلئے میں رشتے داروں کے ہاں گیا اور دوستوں کی غلط پالسیوں کی وجہ سے میری رکنیت ختم کر دی گئی اور اسی دوران میرا رابطہ چیئرمین بشیر زیب سے ہوا انہوں نے مجھے تسلی دی اور مجھے اصل حقائق سے آشنا کرتا گیا اور میں ان میں دلچسپی لیتا گیا، اسی طرح وہ میرے میرے استاد بن گئے مجھے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ مل گیا، جب بھی ان سے رابطہ ہوتا تو وہ مجھے درس دیتے اور خندہ پیشانی کیساتھ میرے ہر سوال کا جواب دیتے تھے، حالات سخت اور کھٹن ہونے کے باوجود آپ بالکل نارمل رہتے اور ہر وقت یہی کہتے تھے کے ہمیں جذباتی نہیں ہونا ہے کیونکہ ہمارے ساتھ مجید بریگیڈ کا سوچ ہے، ہمیں دن رات ایک کر کے محنت کرنا ہے اور دشمن کے ہر وار پر کالی ضرب لگانی ہے اور دوستوں کو حوصلہ دینا ہے، دوستوں کا خیال رکھنا ہے، ہمارے ساتھ جنرل اسلم جیسے شفیق اور مہربان رہبر کی سوچ ہے، ریحان جیسے فدائی کی منزل ہے، ٹک تیر جیسے دلجان کی مسکراہٹ ہے، امیر جان جیسی شجاعت ہے، چلتن جیسی بالاد ہے، مارگٹ کی تلاریں ہیں، اماں یاسمین کی دعائیں اور بہنوں کی صدائیں ہیں، یہ جنگ جیتنا ہی ہمارا مقدر ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر تو ہر کوئی زندگی جی لیتا ہے مگر اصل جینا تو وہی ہے جہاں ہم اس سوچھ کو محسوس کریں کہ “سنگت آ تے برابر کروئی ء”۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔