آزادی مارچ اور بلوچستان کی سیاست پر اس کے اثرات  – خالد ولید سیفی

321

آزادی مارچ اور بلوچستان کی سیاست پر اس کے اثرات 

تحریر : خالد ولید سیفی

دی بلوچستان پوسٹ

کوئٹہ میں ہونے والے پندرہویں اور آخری ملین مارچ میں جب قائد جمعیت نے اسلام آباد میں آزادی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے اکتوبر کے مہینے کا انتخاب کیا تو دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان نے بھی اپنی حتمی تیاریوں کا سلسلہ شروع کیا، بلوچستان کے نومنتخب امیر محترم و جنرل سکریٹری نے کوئٹہ ملین مارچ کے تیسرے روز اپنی صوبائی کابینہ تشکیل دی اور ایک ہفتے بعد صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کرکے 29 اگست سے تمام اضلاع کے دورے کا شیڈول ترتیب دیا جس میں اضلاع کو عوامی مقامات پر جلسہ عام منعقد کرنے کی تاکید کی گئی تاکہ آزادی مارچ اسلام آباد کی تیاری کے ساتھ ساتھ اسکے مقاصد اور پیغام کو براہ راست عوام تک پہنچایا جاسکے۔

29 اگست سے 4 اکتوبر تک بلوچستان کے 33 اضلاع میں سے 30 اضلاع کا تفصیلی دورہ کیا گیا اس دوران صوبائی قیادت نے بہت بڑے بڑے عوامی جلسوں سے خطاب کیا اور آزادی مارچ کے بنیادی مقاصد سے عوام کو آگاہی دی، اور اضلاع کو بھرپور افرادی قوت تیار کرنے کی تاکید کی۔

اٹھارہ اکتوبر کو جے یو آئی بلوچستان کے صوبائی سکریٹریٹ کوئٹہ میں نمائندہ اجلاس طلب کیا گیا جس میں تمام اضلاع نے آزادی مارچ سے متعلق اپنی تیاریوں کی رپورٹ پیش کی جسے صوبائی جماعت کی جانب سے اطمینان بخش قرار دے کر اضلاع کو مذید جانفشانی سے کام کرنے کا کہا گیا تاکہ بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان کا قافلہ کوئٹہ سے 27 اکتوبر کو براستہ ڈی جی خان اسلام آباد روانہ ہوگا، جبکہ ضلع لسبیلہ کو کراچی اور نصیر آباد ڈویژن جس میں کل 6 اضلاع ہیں، کو جیکب آباد سے سندھ کے قافلے کے ساتھ شامل ہونے کا کہا گیا جسے قائد جمعیت کی قیادت میں کراچی سے اندرون سندھ میں داخل ہونا تھا۔

ضلع گوادر کے شرکاء 25 اکتوبر کو اوتھل کے راستے کوئٹہ کیلئے روانہ ہوئے جبکہ کیچ و پنجگور کے قافلوں نے روانگی کیلئے 26 اکتوبر کا دن منتخب کیا تاکہ رات کوئٹہ پہنچ کر صبح صوبائی قافلے کا حصہ بنا جاسکے، گوادر کے شرکاء بخیر و عافیت کوئٹہ پہنچ گئے تاہم 26 اکتوبر کو کیچ میں علی الصبح تربت ٹو کوئٹہ تمام ٹرانسپورٹ لیویز فورس کے ذریعے سیل کرکے قافلے کی روانگی میں رکاوٹ ڈالی گئی جبکہ پنجگور کے قافلے کو شہر سے باہر سی پیک روٹ پر روکا گیا جہاں شرکاء نے تین گھنٹے سی پیک بلاک کرکے احتجاج کیا، کیچ و پنجگور کے قافلے کو جانے نہ دینے کے بعد شرکاء کی ایک مخصوص تعداد پرائیوٹ گاڑیوں پر روانہ ہوئی لیکن سرکاری رکاوٹوں کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد آزادی مارچ میں شرکت کی سعادت سے محروم رہی، ضلع کیچ میں بروقت پریس کانفرنس کرکے اس رکاوٹ کی سخت مذمت کرکے اس آمرانہ سلوک کو پرامن جدوجہد کے خلاف جبر ناروا قرار دیا گیا۔

صوبائی شیڈول کے مطابق 27 اکتوبر کو تمام اضلاع کے قافلوں کو بلیلی چیک پوسٹ کوئٹہ کے مقام پر اکھٹے ہوکر روانہ ہونا تھا تاہم ہزاروں گاڑیوں کو ایک وقت نکالنے کی بجائے یہ فیصلہ ہوا کہ جو قافلے آتے رہیں گے وہ سو، دو سو یا اسی طرح کم وبیش کی تعداد میں آگے روانہ ہوں تاکہ ٹریفک کے مسائل پیدا نہ ہوں اور ہزاروں گاڑیوں کی یکجا روانگی کی صورت میں حد رفتار کی کمی کے باعث تاخیر نہ ہو، چناچہ سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل پہلا قافلہ امیر محترم حضرت مولانا عبدالواسع صاحب اور محترم جنرل سکریٹری مولانا سید آغا محمود شاہ صاحب کی قیادت میں بعد نماز ظہر روانہ ہوا، جس کے بعد آنے والے قافلے بھی روانہ ہوتے گئے، جبکہ ژوب، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، کے قافلے راستے میں صوبائی قافلے میں شامل ہوتے گئے، بلوچستان کے مرکزی قافلے کے رات کا قیام کینگری میں تھا جہاں انکے طعام و قیام کا بندوبست کیا گیا تھا، اور 28 اکتوبر کو صبح دس بجے ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل بلوچستان کا یہ کارواں اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہوا، جہاں موسی خیل، دکی، بارکھان اور کوہلو سے آنے والی سینکڑوں گاڑیوں نے اسکی رونق میں اضافہ کردیا تھا۔ چشم فلک شاید پہلی دفعہ اس طرح کا منظر دیکھ رہا تھا جہاں ہزاروں گاڑیوں میں سوار لاکھوں افراد ملک میں جمہوریت کی بقاء کی جنگ لڑنے اسلام آباد کی جانب جارہے تھے، ہر طرف جھنڈوں کی بہار تھی، قافلے میں پختونخواہ کے جھنڈے بھی نمایاں نظر آرہے تھے جبکہ اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں نے حصہ بقدر جثہ ڈالا ہوا تھا۔

پہاڑوں کی چوٹیوں، تنگ گھاٹیوں، بے آب و گیاہ میدانوں، سہولت سے محروم قصبوں، اور بلوچستان کے بے کیف شہروں سے نکلنے والے ان لاکھوں افراد کا تعلق زیادہ تر لوئرکلاس سے تھا، اور شاید کچھ کچھ مڈل کلاس سے، تلاوت تھی، مذہبی نغمے تھے، حمدو نعتیں تھیں، نعرے تھے، نمازیں تھیں، قہقہے تھے، مسکراہٹیں تھیں، اور ہر سو شادمانی کے گیت سنائی دے رہے تھے، کسی کے چہرے پر پریشانی کی کوئی شکن تھی اور نہ ہی کسی کی آنکھوں میں خوف کے سائے تھے،یہ ہجوم نہ تھا، بلکہ انقلابی جدوجہد کے امین، ذہنی تربیت یافتہ اور فطری تہذیب سے آراستہ، حق و صداقت کا وہ کارواں تھا جنہیں اسلام آباد جاکر شائستگی اور ڈسپلن کی نئی مثالیں قائم کرنا تھا، تاکہ ان ملنے والے اجڈپن اور گنوار جیسے القابات کے طعنے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوں اس کے علاوہ اس کارواں نے اسلام آباد جاکر جہہوری جدوجہد کے باب میں وہ تاریخ رقم کرنا تھا جو ملکی سیاست کی سمت بدل کر اسے صراط مستقیم پر ڈال دے۔

شیڈول کے مطابق بلوچستان اور قائد جمعیت کی قیادت میں سندھ سے نکلنے والے قافلے کو، ملتان میں باہم یکجاء ہونا تھا، بلوچستان کارواں مغرب کی نماز سے کچھ لمحے قبل ڈیرہ غازی خان کی شہری حدود میں داخل ہوا، تو مختلف مقامات پر جے یو آئی اور مسلم لیگ کی مقامی قیادت اور ورکرز نے والہانہ استقبال کیا اور گل پاشی کی، جگہ جگہ اس تاریخ ساز جمہوری کارواں کو دیکھنے کیلئے شہری بڑی تعداد میں باہر نکل کرخوشی کا اظہار کررہے تھے،
شہری حدود سے کچھ باہر مغرب کی نماز ادا کی گئی جس کے بعد ملتان روانہ ہوئے جہاں دوسری رات کا پڑاو تھا۔

قائد جمعیت اور قائد بلوچستان کی قیادت میں سندھ و بلوچستان کے کارواں اولیاء کے شہر ملتان میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے، رات کو قیام ہوا، اگلے دن 29 اکتوبر ملتان میں جلسہ ہوا جس سے قائد جمعیت نے شرکاء سے خطاب کیا، بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی اور پی پی لیڈرشپ بھی سندھ و بلوچستان سے آئے ہوئے جمہوریت کے لاکھوں پروانوں سے مخاطب ہوئی۔۔

تین بجے کے بعد آزادی مارچ کا رخ لاہور کی جانب تھا، راستے میں استقبال تھے، گل پاشیاں تھیں، امیدیں تھیں، بڑے بھی سڑکوں پر تھے، چھوٹے بھی تھے، جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی وہ لوگ بھی آزادی مارچ کی راہوں میں پلکیں بچھارہے تھے جنہیں حکومت کی معاشی پالیسیوں نے نان شبینہ کا محتاج بنایا تھا اور وہ تاجر بھی پھولوں کے ہار لے کر کھڑے تھے جن کا کاروبار تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا تھا۔ آزادی مارچ سب کیلئے امید کی کرن تھا۔

ملتان سے لاہور تک کارواں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، لوگ ملتے رہے، جذبوں کا ایک تلاطم تھا جو اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھا، آزادی مارچ میں کوئی اشتعال نہ تھا، بلکہ ایک نظم تھا جو ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

رات گئے مینار پاکستان لاہور پہنچے، 30 اکتوبر کی صبح مینار پاکستان کے سائے تلے طلوع ہوئی، مینار پاکستان وہ یادگار ہے جہاں سب سے پہلے قرارداد پاکستان پیش ہوئی، کہ ایک ایسا ملک بنایا جائیگا جو اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر ہوگا اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت کو بطور ماڈل اپنائے گا، ایسا ملک جہاں انصاف، مساوات اور رواداری ہوگی۔۔۔قران وسنت سپریم لاء ہونگے، پاکستان دنیا بھر میں مسلمانوں کی قیادت کرے گا،لیکن
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
جو انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

تیس  اکتوبر 2 بجے مینار پاکستان پر جلسہ ہوا، جہاں قائد جمعیت نے ایک بار پھر جائر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا، مارچ کے مقاصد کی تفصیل بتائی، حکومت کی معاشی ناکامی اور فکری آلودگیوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔جلسے سے جے یو آئی بلوچستان کے امیر حضرت مولانا عبدالواسع صاحب اور دیگر نے خطاب کیا۔

تیس  اکتوبر سہ پہر کو آزادای مارچ کا کارواں جمہوریت کا نغمہ لبوں پر سجائے اسلام آباد کی طرف گامزن ہوا، ہزاروں گاڑیاں لاکھوں لوگ، جس جس شہر پہنچتے، استقبال کرنے والوں کا ایک جم غفیر دیدہ و دل فراش کیے سڑکوں پر موجود تھا، داڑھی پگڑی والوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو حیران کردیا تھا، ایک طرف آکسفورڈ والے جمہوریت کی مٹی پلید کررہے تھے تو دوسری جانب مدرسے کا خاک نشین، جمہوریت بچانے کی جدوجہد میں لاکھوں لوگوں کی قیادت کرتے اسلام آباد جارہے تھے۔۔

رات کو گوجر خان میں قیام ہوا اور 31 اکتوبر کو رات 3 بجے آزادی مارچ کا قافلہ قائد جمعیت اور پاسبان جمہوریت کی قیادت میں اسلام آباد میں داخل ہوا، اسلام آباد اور راول پنڈی کے سنگم پر کے پی کے کا کارواں بھی مرکزی قافلے سے آملا،مولانا جب اسلام آباد پہنچے تو لوگوں کا سمندر ان کے ساتھ تھا۔۔
قیادت تھی، ورکرز تھے، ہمدرد تھے، عوام تھا، خیرخواہ تھے اور جذبوں کا ایک سیل رواں تھا جو کشمیر ہائی وے پر امڈ آیا تھا۔

تیرہ دن اسلام آباد میں پڑاو کے دوران آزادی مارچ دنیا بھر کیلئے ایک مثال بن گیا، تربیت سے لیکر شائستگی تک، ڈسپلن لیکر نظریاتی وابستگی کے والہانہ پن تک، سب کچھ دیکھنے والوں کیلئے ناقابل یقین تھا۔

تیرہ دن بعد جب آزادی مارچ اسلام آباد سے اٹھا تو اپنے جلو میں نہ صرف حکومتی تکبر اور غرور کو بہاکر لے گیا بلکہ اس کو ” دست شفقت ” سے بھی محروم کردیا۔۔یوں ان کے مصنوعی دبدبے اور طمطراق کی عمارت لمحوں میں زمین پر آگری۔

اب ملکی سیاست کو ماقبل آزادی مارچ اور مابعد آزادی مارچ کے تناظر میں دیکھا جائیگا اور اس پر تبصرے و تجزئیے کیے جائیں گے، جے یو آئی کی قوت کے اس بے مثال مظاہر نے طاقت کے مراکز تبدیل ہونے کا واضح اشارہ دیدیا۔
آزادی مارچ کے بعد یوں تو پورے ملک کی سیاست پر دورس اثرات مرتب ہوں گے لیکن بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کو الگ جنم ملنے کا قوی امکان ظاہر کیا جارہا ہے، آزادی مارچ نے بلوچستان میں برسوں برسر پیکار حریفوں کو حلیف بنادیا۔

سرد جنگ کے بعد جس طرح مذہبی و نیشنلسٹ سیاست میں ایک خلیج پیدا ہوگئی تھی اور ان دو تصورات کے مابین مخاصمت کسی سے ڈھکی چپھی نہیں تھی، اب آزادی مارچ میں ان کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔

مولانا فضل الرحمن کے ایک طرف محمود خان کھڑے تھے تو دوسری طرف ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نمایاں تھے۔

بلوچستان کی پارلیمانی سیاست مذہبی اور پختون و بلوچ نیشنلزم کے گرد گھومتی ہے اور اس وقت پختونخواہ اور نیشنل پارٹی جو بلوچستان کی سیاسی بساط پر نیشنلزم کی سیاست کی امین جماعتیں سمجھی جاتی ہیں، وہ جمہوریت کی بقاء کیلئے ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔۔گویا آج پھر غوث بخش بزنجو، خان عبدالصمد خان اور مفتی محمود کا ملاپ دیکھنے کو ملا ہے۔

اگر مستقبل قریب میں یہ تینوں ستون اپنی اس قربت کو پارلیمانی یا انتخابی قربت میں بدل دیں تو بلوچستان کے عوام کو ایک مضبوط و مستحکم بلدیاتی و صوبائی حکومت دیکھنے کو ملے گی۔بلوچستان کی سیاست اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے قابو میں ہے، باپ کے نام پر راتوں رات موم کی ایک ایسی ناک بنادی گئی ہے جسے جس طرف چاہیں پھیر لیں، بلوچستان کے عوام اپنے وسائل سے متعلق پہلے سے سخت تحفظات رکھتے تھے اور اوپر سے ایسی حکومت جو خالی پیپر پر دستخط کرنے میں ذرا بھی تردد کا مظاہرہ نہیں کرتی، کی موجودگی بلوچستان کے وسائل سے متعلق خدشات کو مذید تقویت دینے کی باعث ہوگی
اس لیے بلوچستان میں تین ایسی پارٹیاں جو لوئر کلاس اور مڈل کلاس کی نمائندہ جماعتیں سمجھی جاتی ہیں اگر وہ آزادی مارچ کی تحریک کی ملن کو دائمی بندھن میں باندھنے میں کامیاب ہوئیں تو یہ بلوچستان کی سیاست میں خوشگوار دور کا آغاز سمجھا جائیگا، جس کی قوی امید کی جارہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔