سندھی و دیگر محکوموں کے ساتھ ملکر جدوجہد کرینگے – ماما قدیر بلوچ

268

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3778 دن مکمل ہوگئے۔ بلیدہ سے ادیب و شاعر مومن معراج، نذیر بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ نوشکی سے جبری طور پر لاپتہ طالب علم رحمت اللہ بلوچ کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے کونے کونے میں پاکستانی فورسز بلوچ آبادیوں پر حملے کرکے لوگوں کو لاپتہ اور شہید کررہے ہیں۔ پاکستان گماشتوں کیساتھ ملکر پاکستانی فورسز بلوچ نسل کشی میں تیزی لاچکے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچ اور سندھی کا دشمن ایک ہے، پاکستان سندھی و بلوچ قوم کی جدوجہد کی کامیابیوں سے اپنے سامراج کا خاتمہ دیکھ کر تسلسل کے ساتھ بلوچ و سندھی فرندوں کو شہید کرکے ان کی لاشیں پھینک رہی ہے۔ بلوچ کی طرح سندھی بھی پاکستانی سامراجیت کے شکار ہے جنہوں نے پاکستانی سامراجی حربوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مستقبل کا شمع روشن رکھا ہے بلوچوں کی ہمدردیاں سندھیوں، پشتونوں سمیت تمام مظلوم اقوام کے ساتھ ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ بلوچ سندھی محکوم عوام کے ساتھ مل کر پاکستانی جبر کے خلاف جدوجہد کو آگے لے جائینگے تاکہ سندھ اور بلوچستان میں سامراجی وجود ختم ہوجائے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بناکر خوشحالی کا روشن دن طلوع ہوسکے۔

دریں اثناء ضلع نوشکی سے جبری طور پر لاپتہ طالب علم رحمت بلوچ کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، لواحقین میں بڑی تعداد خواتین و بچوں کی تھی۔

لاپتہ رحمت اللہ کے ہمشیرہ نے بتایا کہ رحمت اللہ ولد پروفیسر عبدالواحد کو 18 جنوری 2015 کو مرکزی شاہراہ نوشکی میں قائم فرنٹیئر کور چیک پوسٹ سے سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکار اس وقت اپنے ہمراہ لے گئے جب وہ اپنے شادی کے لیے کوئٹہ سے فرنیچر خرید کر واپس آرہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم پچھلے پانچ دنوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں احتجاج پر بیٹھے ہیں جبکہ رحمت اللہ جبری گمشدگی کے تفصیلات وائس فار بلوچ مسنگ پرنسز کے پاس درج کرچکے ہیں جنہیں تنظیم کی جانب سے بلوچستان حکومت اور انسانی کے دیگر تنظیموں کے پاس جمع کیا گیا۔

رحمت اللہ کے ہمیشرہ نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر اعلیٰ و انسانی حقوق کے علاقائی و عالمی تنظیمیں میرے بھائی کے رہائی میں اپنا کردار ادا کرکے ہمیں ذہنی اذیت سے نجات دلائینگے۔

خیال رہے بلوچستان کی طرح سندھ اور خیبرپختونخواہ میں بھی جبری گمشدگیوں کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کے خلاف مختلف اوقات میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔

مسنگ پرنسز آف سندھ تنظیم کی جانب سے جیئے سندھ تحریک کے رہنما سید مسعود شاہ سمیت سندھ بھر سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے آج بروز ہفتہ سے 24 گھنٹوں کیلئے کراچی پریس کلب پر احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا جارہا ہے۔