بلوچستان میں فوج کی بیہودگی اور بدفعلی
تحریر۔ ہونک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کا واقعہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایسے واقعات بلوچستان میں ہر وقت سامنے آتے رہے ہیں، ایسے واقعات کا تعلق درپردہ اور براہ راست پاکستانی فوج اور انکے پالے ہو ئے ڈیتھ اسکواڈ سے ہوتا ہے، بلوچستان میں جبر کا قانون موجود ہے، قابض فو ج کا جو دل چاہے کرتا رہتا ہے، کیونکہ اس فوج کی فطرت میں شامل ہے وہ ایسی بیہودگی اور بدفعالی میں بہت مشہور ہے۔ بنگلادیش میں انکے بیہودگی اور بدفعلی انکے اپنے ایک بیوروکریٹ اور “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے ہوئے دیکھا” کتاب کے مصنف صدیق سالک کافی باریکی سے لکھ چکے ہیں ۔ بلوچی میں ایک ضرب المثل ہے’’ کجام ساھدار ءِ دپ ھونین بو ت گُڑا آ کار ءَ نئیت ، آئی ختم بکن اگاں نا گُڑا ترا نُکسان دنت ‘‘ اس کی مطلب اور معنی مختصر یہ کہ جو جانور ایک دفعہ کسی جانور کو کاٹ لے تو اُسے ماردیا جائے، ورنا نقصان دینے کا سبب بنتا ہے۔
پاکستانی فوج کی تاریخ کچھ اس طرح ہے، وہ جنگ تو نہیں کر سکتا ہے لیکن بیہودگی اور بدفعلی میں بہت مشہور ہے، بنگلہ دیش میں انکا کردار جنگ کےلئے مشہور نہیں بلکہ بچوں اور عورتوں کے ساتھ بدفعلی میں بہت مشہور ہے ، لیکن اگر کوئی اس تحریر کا مطالعہ کررہا ہے، موضوع سے ہٹ کر دنیا پر نظر دوڑا رہا ہے تاکہ پاکستانی فوج کی اصلیت معلوم ہو سکے، میں اُسے کہتا ہوں یونیورسٹی میں اختیار دار فوج ہے، وائس چانسلر کی ایک ویڈیو کلپ نظر سے گذارا کہتا ہے کہ یہاں فوج کا کردار بہت اہم ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں اصل میں یو نیورسٹی کو کون چلا رہا ہے۔
گذشتہ ایک دھائی سے پاکستانی آرمی بلوچستان یونیورسٹی میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا ہر دوسرے طلبااور طالبات پر ایک فوجی اہلکار تعینات ہے، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یونیورسٹی کی آدھی تعداد میں پاکستانی ملٹری موجود ہے، شاید دنیا کےلئے تعجب کی بات ہوگی لیکن بلوچستان کے پرائمری اسکول سے لے یونیورسٹی فوج ہی فوج ہے ، ہر گاوں میں ایک فوجی چوکی موجود ہے جو کسی تعلیمی ادارے پر قائم ہے ، جو لوگوں کو روز ہراساں کرتے ہیں، یہ سب کے سامنے عیاں ہیں کچھ مثالیں دینے کی کوشش کرتاہوں جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے لوگوں کی تذلیل ہو تی رہتی ہے۔
تربت کے علاقے دشت میں گذشتہ چار سالوں سے پاکستانی فوج بڑی تعداد میں موجودہے۔ علاقے کے مکین اکثر فوج کی جبر سے تنگ آکر ہجر ت کرچکے ہیں، دشت سے ایر ان یا دوسرے نزدیکی شہروں میں مہاجروں کی زندگی بسر کررہے ہیں، جو لوگ ہجرت نہیں کرسکتے ہیں باقی وہاں موجود ہیں، پاکستانی فوج روز گھروں میں لوگوں کو یہ کہتا ہے آپ ہمارے کیمپ آیا کریں ورنا ہم آپ لوگوں کے مردوں کو گرفتار کرکے غائب کریں گے، کیونکہ بلوچستان میں کوئی قانون نہیں جو فوج سے پوچھے کیونکہ سب کچھ کرتے ہیں، پاکستان کی بلوچستان پر قبضے سے لے کر آج تک فوج کا جو دل چاہے وہی بلوچستان میں کرتا رہاہے۔
دوسرا واقعہ آواران ماشی میں معصوم بچیوں کے ساتھ ہوا، پاکستانی فوج ہراسمنٹ کرتا ہےاس واقعے کا پورے آواران کے عوام کو معلوم ہے، فوج متاثرین کے گھر والوں سے کہتا ہے اگر کہیں پر کچھ کہا اپنی ذمہ دار خو د ہو نگے، آپ لوگوں کا خیر نہیں انکی آواز کو دبا دیا گئے۔ آپ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے آواران، مشکے، کولواہ میں ۲۰۱۳ کی زلزلے کے بعد پاکستانی فوج کی موجودگی پہلے سے زیادہ ہو گیا تھا۔ جس نے اب تک ہر طرح کے کرائم کی ہے، انسان کشی میں براہ راست ملوث ہیں لیکن ان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے ، یہ باتیں میڈیا میں نہیں آتے ہیں تو اسکی وجہ پاکستانی فو ج کا خوف ہے۔
شازیہ خالد والے قصے سے ہر ایک واقف ہوگا، فوج کے ایک کیپٹن حماد شازیہ خالدکے ساتھ ریپ کرتے ہیں، وہ واقعہ ڈیرہ بگٹی میں ہوا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی صاحب کہتے ہیں اسے سزا دیا جائے جس نے ہمارے مہمان کی عزت پائمال کی ہے مگر فوج خاموش ہو کر نواب صاحب کے خلاف پر وپیگنڈا شروع کرتا ہے تو شہید نے فو ج کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا، مگر آواران میں پاکستانی فوج کے ساتھ نام نہاد سردار علی حیدر محمدحسنی خود شریک جرم ہے۔ جسے بلوچی روایات سے کو ئی سروکار نہیں، انکی اصلیت بھی قوم اچھی طرح جانتی ہے، راغے میں بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تھا، پنجگور میں مہر اللہ نامی ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار نے عورتوں کو اغواء کرکے کیمپ لے جاکر انکے ساتھ کیا کچھ کیا ہوگا، هر ایک اندازہ لگا سکتا ہے۔
بلوچستان میں ایسے واقعے ہر دن ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، جب تک پاکستانی فوج بلوچستان میں موجود ہے۔ یہ تمام واقعات کا ذکر کرنے کا مراد صرف یہی ہے کہ آپ بلوچستان یونیورسٹی کے واقعے کوسمجھ سکیں کہ یہاں یہ واقعہ کس طرح ہوا، اس واقعے میں پاکستانی فوج، یونیورسٹی کے وائس چانسلر، بلوچستان کے گورنر ملوث ہیں۔ یہ بات ہر ایک ذہن میں رکھیں یہ واقعات آگے بھی ہو تے رہیں گے، جب تک یہ نو آبادیاتی ریاست موجود ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے اس واقعے کی تحقیقات کرے گا، یہ مشکل اور ناممکن ہے کیونکہ یہ سب کچھ دکھانے کہ سوا اور کچھ نہیں ہے، لیکن بلوچ اور پشتوں پر اب بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس کو تحقیقات نہیں بلکہ اس کہ ملوث اہلکاروں کے خلاف بغاوت کا اعلان کریں، جب تک بلوچستان میں پاکستانی فوج ہے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، یو نیورسٹی انتظامیہ اب سب کچھ ہو نے کے بعد بھی اور بھرتیاں کررہاہے جو کرپشن میں ملوث ہیں، اس مسئلے کا حل ایک ہے، ان کو سزا بلوچ آزادی پسند دیں تاکہ آئندہ کوئی سوچ نہ سکے۔
طلبا اور طالبات اپنی سوچ کو وسیع کریں ناکہ وائس چانسلر ،چانسلر تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ کچھ اور جب تک فوج نہیں چاہتی تو طلبا اور طالبات ایک چیز نہیں کر سکتے ہیں، اگر اپنی انرجی کو خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس بوسیدہ نظام کو جڑ سے ختم کرنے کےلئے اپنا کردار ادا کریں ناکہ سطحی مسئلوں میں خود کو مصروف کریں نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے لئے ہر ایک اپنا اپنا کردار ادا کرے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔