دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 15
مصنف: مشتاق علی شان
نظریے کا ہتھیار | حصہ اول
(جنوری 1966میں ہوانا (کیوبا) میں منعقدہونے والی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے عوام کی پہلی سہہ براعظمی کانفرنس سے امیلکار کیبرال کا تاریخی خطاب)
ہم یہ پلیٹ فارم سامراج کے خلاف چیخنے چلانے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ ایک افریقی کہاوت ہے کہ”جب گھر جل رہا ہو تو ڈھول بجانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔“ سہہ براعظمی سطح پر اس کہاوت کے معنی یہ ہیں کہ سامراج کے خلاف ہتک آمیز فقروں سے سامراج ختم نہیں ہوگا۔ سامراج کی ہتک کرنے کا سب سے اچھا یا سب سے بد ہتھیار، آپ جو بھی کہیے، یہ ہے کہ ہتھیار اٹھا کر لڑائی لڑی جائے۔ ہم یہی کر رہے ہیں اور جب تک ہمارے افریقی وطن کی پوری سرزمین سے غیر ملکی تسلط ختم نہیں ہو جاتا، ہم یہی کرتے رہیں گے۔
زیر غور موضوعات کی معنویت اور اہمیت سے کسی کا انکار نہیں ہوسکتا اور ان سارے موضوعات میں جدوجہد کا بنیادی رحجان مشترک ہے، لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ جدوجہد کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو ہم بنیادی تصور کرتے ہیں مگر جو اس پروگرام میں واضح طور پر نہیں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ پروگرام بنانے والوں کے ذہن میں یہ پہلو ضرور موجود رہا ہوگا۔ ہماری مراد خود اپنی کمزوریو ں کے خلاف جدوجہد سے ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسری مثالیں گنی سے مختلف رہی ہوں گی لیکن ہمارے تجربے نے ہمیں سکھایا ہے کہ معاملہ چاہے ہمارے عوام کی موجودہ ضروریات کا ہو یا مستقبل کا، روزمرہ کی عام سرگرمیوں میں دشمن کتنی ہی مشکلیں کیوں نہ کھڑی کر دے سب سے زیادہ مشکل جدوجہد خود اپنے خلاف ہوتی ہے۔ اس جنگ میں ہمارے مخصوص ملک کی اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی (اور چنانچہ تاریخی) حقیقت کے اندورنی تضادات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس قومی یا معاشرتی انقلاب کی بنیاد اس اہم حقیقت پر نہیں ہوگی اسے ناکامی کا شدید خطرہ لاحق رہے گا۔
ایک افریقی کہاوت ہے کہ ”تمھارے کنوئیں سے پانی چاہے جتنا گرم نکلے اس سے چاول ہر گز نہیں پکیں گے۔“ یہاں ہمارے لوگوں نے طبیعات کا ہی نہیں بلکہ علم ِسیاست کا بھی بڑا بنیادی اصول بہت سادگی سے بیان کر دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جو چیز بھی حرکت میں ہوگی اس کی ترقی کا انحصار اندرونی خواص پر ہو گا، باہر سے اس کی شکل چاہے جیسی نظر آئے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسروں کی حقیقت چاہے جتنی دلکش اور بھلی نظر آئے سیاسی سطح پر خود ہماری حقیقت اس طرح بدل سکتی ہے کہ ہم اس کی ہر تفصیل اچھی طرح سے جانتے ہوں اور اسے بدلنے کے لیے خود تدبیر کریں اور قربانیاں دیں۔ اس سہہ براعظمی اجلاس میں جہاں ایک دوسرے کو دینے کے لیے ہمارے پاس مثالوں اور تجربوں کے بڑے خزانے ہیں، یہ یاددہانی بھی سود مند ثابت ہونی چاہیے کہ ہمارے متعدد حالات میں مشترک باتیں چاہے جتنی ہوں، ہمارے دشمن بالکل ایک ہی کیو ں نہ ہوں، قومی آزادی اور معاشرتی انقلاب باہر سے برآمد کرنے والی چیز نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ مقامی اور قومی سفر کی منزلیں ہوتی ہیں جن پر خارجی عناصر کا تھوڑا بہت اچھا اثر، برا اثر پڑسکتا ہے۔ مگر بنیادی طور پر ان کی شکل اور تقدیر ہر قوم کی تاریخی حقیقت سے بنتی ہے اور کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس حقیقت کے اندر جو تضادات موجود ہوں ان کا درست حل نکالا جائے۔ کیوبا کا انقلاب زمانے بھر کی سب سے بڑی سامراجی اور اشتراکیت دشمن طاقت سے فقط نوے میل دور برپا ہوا ہے اور اس انقلاب کی کامیابی، اس کی اصل مائیت اور اس کا ارتقا ہی ہمارے اصول کی صحت کی سب سے زیادہ عملی اور مکمل مثال ہے۔ لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم خود اور عام طور پر آزادی کی دیگر تحریکیں (افریقی تجربے کی مثال بالخصوص ہمارے سامنے ہے) ہماری مشترکہ جدوجہد کے اس اہم مسئلے پر ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دے پائی ہے۔
اکثر تو قومی آزادی کی تحریکوں میں نظریہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ جہاں ہوتا ہے وہاں پسماندگی اس لیے ہے کہ جس تاریخی حقیقت کو بدلنے کی یہ تحریکیں دعویدار ہیں ان کا علم ان تحریکوں کو نہیں ہوتا۔ یہ نظریاتی پسماندگی سامراج کے خلاف ہماری جدوجہد میں سب سے بڑی نہیں تو بہت بڑی کمزوریوں میں سے ایک ضرور ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ مختلف تجربے اتنی بڑی تعداد میں ہمارے سامنے جمع ہوگئے ہیں کہ یہ پسماندگی دور کرنے کے لیے سوچ اور عمل کے ایک عمومی طریقے کی نشاندہی اب ممکن ہونی چاہیے۔ اس موضوع پر مکمل گفتگو فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے تاکہ قومی آزادی کی تحریکوں کے حالیہ اور آئندہ کاموں میں مزید توانائی پیدا کرنے کے لیے یہ اجلاس مثبت اور مفید کردار انجام دے سکے۔ یہ ان تحریکوں کی امداد کا بہت ٹھوس طریقہ ہوگا اور اس کام کی ہمارے نزدیک اتنی ہی اہمیت ہے جتنی سیاسی حمایت یا اسلحہ وغیرہ کے لیے مالی امداد کی ہوتی ہے۔
اس گفتگو میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈالنے کی غرض سے ہم یہاں سماجی ڈھانچے کی مناسبت سے قومی آزادی کی بنیاد اور مقاصد کے سوال پر اپنی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری یہ رائے جدوجہد کے اپنے تجربے اور دوسروں کے تجربات پر سنجیدہ سوچ بچار سے نکلی ہے۔ جن لوگوں کو اس بات میں نظریاتی پہلو کھٹکتا ہے انہیں ہم محض اس قدر یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہر عمل ایک نظریے کو جنم دیتا ہے اور یہ بیشک سچ ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نظریے کے باوجود انقلاب کی ہر کوشش ناکام ہو سکتی ہے لیکن کسی مائی کے لال نے انقلابی نظریے کے بغیر انقلاب آج تک کر کے نہیں دکھایا۔
جو لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں اور ہماری رائے میں درست کہتے ہیں کہ تاریخ کو آگے بڑھانے والی قوت طبقاتی جدوجہد ہی ہے وہ یقیناَ وضاحت کی خاطر اس اصول میں ذراسی ترمیم پر اعتراض نہیں کریں گے تاکہ اصول کا اطلاق زیادہ چیزوں پر ہوسکے اور سامراجی نظام میں جکڑی ہوئی چند قوموں کی مخصوص کیفیات اس تعریف کے دائرے میں آجائیں۔ دراصل انسانیت کے عام ارتقا میں اور ان تمام قوموں کے ارتقا میں جن سے مل جل کر انسانیت بنی ہے طبقات نہ تو تمام گروہوں میں بیک وقت ایک عمومی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اور نہ ایسی کلیت کی شکل میں وجود رکھتے ہیں جو آپ ہی آپ ہموار طریقے سے پیدا ہو کر ہر جگہ اپنی مکمل اور خالص شکل اختیار کرلے۔
کسی ایک یا متعدد انسانی گروہوں میں طبقات کی تعریف کے لیے دو باتیں معلوم کرنی ہوتی ہیں ایک یہ کہ پیداواری قوتوں کی بتدریج ترقی کس طرح ہوئی اور نتیجے کیا نکلے۔ دوسری یہ کہ ان گروہوں میں خود پیدا کی ہوئی یا دوسروں سے چھینی ہوئی دولت کی تقسیم کس طرح ہوئی اور اس تقسیم کے خاص خاص پہلو کیا ہیں۔ مطلب یہ کہ ”طبقہ“ ایک معاشرتی اور اقتصادی چیز ہے اس کی پیدائش اور نشوونما کا انحصار دو لازمی اور باہم گتھے ہوئے عناصر پر ہوتا ہے۔ اول اس بات پر کہ کسی مخصوص معاشرے میں پیداواری قوتیں کس معیار تک پہنچی ہے۔ دوئم اس بات پر کہ پیداواری ذرائع کی ملکیت کا کیا ڈھانچہ بنا ہے۔ ان عناصرکی نشوونما دھیرے دھیرے بڑے عرصے میں جا کر ہوتی ہے۔ پیداوار اور ملکیت میں باریک سی تبدیلیاں آتی ہیں مختلف جگہوں پر تبدیلی کی رفتار مختلف رہتی ہے مگر ایک بار پیداواری ملکیت کا سمٹاؤ ایک مخصوص درجے تک پہنچ جائے تو پھر نتیجہ ایک کیفیتی زقند کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس زقند کے طفیل طبقے پیدا ہوتے ہیں اور طبقوں کا ٹکراؤ جنم لیتا ہے۔
معاشرتی معیشت سے باہر کے عناصر طبقوں کی نشوونما پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ ان اثرات کی اہمیت کہیں کم ہوتی ہے، کہیں زیادہ اور ان اثرات کے تحت یہ نشوونما کہیں ڈھیلی پڑتی ہے کہیں تیز ہوجاتی ہے، کہیں آگے بڑھنے کے بعد پیچھے پلٹ آتی ہے۔ جب بھی اور جس وجہ سے بھی باہر کے ان اثرات کی شدت کم ہو جائے نشوونما دوبارہ آزاد ہو جاتی ہے۔ مگر اس کی رفتار پہ دو چیزیں اثر ڈالتی ہیں۔ ایک طرف تو اندرونی خصوصیات ہوتی ہیں جو دوبارہ خود مختار حیثیت اختیار کر جاتی ہیں، مگر ساتھ ہی خارجی عناصر اور وقتی دباؤ تلے کچھ نتائج مرتب ہو چکے ہوتے ہیں جن کا اثر چلتا رہتا ہے۔ خالص اندرونی سطح پر رفتار میں تبدیلیاں ممکن ہیں مگر نشوونما مستقل اور ترقی پذیر ہوتی ہے۔ ایک دم سے بہت بڑی ترقی صرف ان حالات میں ممکن ہے کہ پیداواری قوتوں کے معیار میں یا ملکیت کے ڈھانچے میں اچانک بہت شدید تبدیلیاں رونما ہو جائیں۔ پیداواری قوتوں کی سطح یا ملکیت کا ڈھانچہ بدل کر طبقات کی نشوونما میں شدید اندرونی تبدیلیاں لانے کے عمل کو معیشت اور سیاست کی زبان میں انقلاب کہا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس عمل کے امکانات پر خارجی عناصر کا بین اثر پڑتا ہے اور انسانی گروہوں کے باہمی رابطے بالخصوص اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ باہمی رابطے سفر اور پیغام رسانی کی ان سہولتوں سے مزید بڑھ گئے جن کے سہارے جدید دنیا بنی ہے۔ ان سہولتوں نے مخصوص علاقوں کے اندر بسنے والے انسانوں کے مابین کسی براعظم کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کے مابین حتیٰ کہ خود براعظموں کے مابین علیحدگی کی دیواریں توڑ دی ہیں۔ ایک بہت طویل تاریخی دور میں یہ ترقی ہو پائی ہے۔ اس کی شروعات آمد ورفت کے بالکل ابتدائی ذرائع کی ایجاد سے ہوئی۔ یونان کی جہاز سازی اور نوآبادیاتی نظام میں اس کا فروغ ہوا پھر طویل سمندری سفروں میں نئی نئی دریافتیں ہوئیں۔ آخر بھاپ کا انجن بنا اور بجلی کی دریافت ہوئی اور خود ہمارے زمانے میں ایٹمی توائی پر دسترس میں چاند اور سورج پر شب خون کے مواقع ہوں یا نہ ہوں، کائنات کو انسانیت کا شرف اور درس دینے کے وعدے ضرور پنہاں ہیں۔
چنانچہ ہم مندرجہ ذیل سوال کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تاریخ کی ابتدا ان چیزوں کی نشوونما سے ہوئی جنھیں ہم طبقہ اور طبقاتی جدوجہد کہتے ہیں؟ اگر ہم یہ بات درست قرار دیں تو ہم انسانی گروہوں کی زندگی کا وہ سارا دور تاریخ سے باہر نکال رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے جس میں انسان نے پہلے شکار کھیلنا سیکھا، پھر خانہ بدوشی سیکھی، ابتدائی قسم کی کھیتی باڑی کی، جنگلی جانوروں میں سے چن چن کر خاص قسموں کو سدھایا، سکھایا اور ریوڑ بنائے اور آخر کار زمین کو ذاتی ملکیت میں لینا شروع کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔