یہ بقا کا مسئلہ ہے – عزیر نذر بلوچ

156

یہ بقا کا مسئلہ ہے

تحریر: عزیر نذر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان جو انسانیت، سیکولرازم ، مہمان نوازی، پیار و محبت کی سرزمین ہے. یہاں کے لوگ دوسروں سے محبت، عزت و احترام کرنا سکھاتے ہیں. یہاں عورتوں کو وہ مقام دیا جاتا ہے جو شائد ہی خطے میں کہیں اور دیا جاتا ہوگا. ان کی عزت و احترام جو ایک جنگ کو روک سکتا ہے. برسوں سے چلنے والی چاکر و گہرام کے درمیان جنگ کو روکنے کا کردار ایک عورت ہی ہے.

اس سرزمین پر عورتوں کو ان کے حقوق دینے میں کوئی پابندی نہیں تھی، جب تک یہاں انگریزوں نے اپنا قبضہ نہیں جمایا. جنہوں نے اس سرزمین کی توازن کو بگاڑ کے رکھ دیا. جب سے اس سرزمین پر غیروں کی نظر پڑی ہے تب سے یہاں عورت سے لے کر مرد تک سب انسانی المیے سے گذررہے ہیں. پہلے نوجوان لڑکے دھمکائے جاتے تھے، چپ کروائے جاتے تھے، مگر اب عورتوں کو تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے کا سلسلہ (جو کئی سالوں سے چلتی آرہی ہے) پیش آیا ہے. پہلے سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں لڑکیوں کو حراساں اور بلیک میل کرنے کا مسئلہ اٹھا، طلباء نے اس پر مظاہرے کیئے مگر کچھ نہیں ہوا، کسی ذمہ دار کو سزا نہیں ہوئی. اب بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل ظاہر ہوا ہے. بلوچستان یونیورسٹی جو کہ بلوچستان کا مادر یونیورسٹی ہے، ایک ہی واحد بڑا یونیورسٹی ہے. یہاں دور دراز سے طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لیئے آتے ہیں. والدین اپنے آنکھوں میں خواب لیئے بچوں اور بچیوں کو یہاں بھیجتے ہیں، مگر ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ انکے بچے یہاں کس المناک اور سخت حالات میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں.

ابھی یہ مسئلہ Sexual Harassment سے سامنے آیا ہے، لڑکیوں کے ہاسٹل میں چھپے ہوئے کیمرے لگائے گئے تھےاور ان کو کئی اور طریقے سے ہراساں کررہے تھے. کئی لڑکیوں کے والدین اپنے بچیوں کو فون کرکے بلا رہے ہیں.

مگر اب یہ مسئلہ ایک سنجیدہ رخ اختیار کر گیا ہے. ایک مسئلے کے پیچھے کئی اور مسئلے چھپے ہوئے ہیں جو کہ اب سامنے آرہے ہیں اب یہ مسئلہ صرف ہراساں کرنا نہیں بلکہ اداروں میں موجود طلبا پر پابندیاں اور اداروں کی اپنی من مانیوں کے خلاف ایک جہد بن گئی ہے. بلوچستان کے سارے تعلیمی اداروں میں طلباء پر غیر قانونی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جو ملک کے کسی بھی اور ادارے میں نہیں ہیں. یہاں طلباء کو آزادیِ سپیچ نہیں ہے، تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر فنکشن کرنے پر پابندی ہے، سیاسی بات کرنا ممنوع ہے. وہ یہی چاہتے ہیں کہ یہاں صرف مشین نکلیں جن کے پاس ڈگری تو ہوگا مگر زندگی کے کسی زاویہ کو انسان کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکیں گے. ایسے میں انسان کی شکل میں صرف گدھے ہی نکلیں گے جن کو مالک گاڈی لگا کر اپنا کام کروا سکے.

یہ مسئلہ اب سب کا مسئلہ ہے، بلوچوں کا مسئلہ ہے، پشتونوں کا مسئلہ ہے اور یہاں رہنے والے ہرایک قوم کا مسئلہ ہے. یہ مسئلہ کسی لڑکی یا لڑکے کا مسئلہ نہیں ہے. اس کو صرف لڑکیوں کے ہراساں کرنے کا مسئلہ پیش کرنا بھی اصل مسئلے سے نا انصافی ہے.

کوئی بھی طالب علم جو ایف ایس سی میں ہو یا یونیورسٹی میں سارے اس میں شامل ہیں. یہی ایک سنہرا موقع ہے کہ سارے اسٹوڈنٹس چاہے وہ بلوچستان یونیورسٹی کے ہوں یا نا ہوں سب کو مل کر کندھے سے کندھا ملا کر اس جدوجھد کو کامیاب کرنا ہوگا. اب اگر سب ایک نہیں ہوئے تو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی. طالب علموں پر غیر قانونی پابندیاں ختم ہوں گے تو سب کی جان، عزت و غیرت محفوظ ہوگی. اپنے اپنے اختلافات اور ‘کینَگ’ کو چھوڑ کر سب کو ایک ہوکر ہم آواز بننا ہوگا. بلوچستان جو کمٹڈ شخصیات کی سرزمین ہے. اسے بچانا ہوگا. یہ سب پر فرض ہے کیونکہ آج اگر میں ہوں تو کل آپ ہونگے آپ کے بعد آپ کے رشتہ دار ہوں گے، سب متاثر ہونگے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔