” ہم دہشتگردنہیں، آزادی چاہتے ہیں”
تحریر: میرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کئی سالوں سے لیکر آج تک بلوچ غلامی کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں اور اپنی آزادی کے لیے سروں کی قربانی بھی دے رہے ہیں، کبھی پرتگیزیوں سے، کبھی فرنگیوں سے، کبھی مغلوں سے اور کبھی گجروں سے اور کبھی پنجابیوں سے لڑکر جام شہادت نوش کرتے آرہے ہیں۔ اسی طرح 1839 عیسوی میں محراب خان نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کیا اور جام شہادت نوش کرگئے اور ایک طویل جد و جھد کے بعد بلوچستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے ابھرا اور 11اگست 1947 کو میر احمد یارخان نے جمعہ کے روز مسجد میں آزادی کا اعلان کیا اور آزاد بلوچستان کا پرچم لہرایا گیا۔
بعد میں محمد علی جناح نے بھی بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا جبکہ بلوچستان کو ایک آزاد ریاست قرار دیا گیا، مگر وہ اس بات سے جلد مکر گئے اور اکتوبر 1947کو خان قلات کو فون کیا گیا اور بلوچستان کو ایک ساتھ کرنے کا دعویٰ کیا گیا جسکی شروعات The balochistan conundrum سے ہوا، خان آف قلات میر احمد یارخان نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا جبکہ بلوچستان کے پارلیمنٹ جو ایوان زیریں اور ایوان بالا کے نام سے مشہور تھے نے بلوچستان کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا۔ مگر 27مارچ 1948 کو بزور فوجی طاقت پاکستان نے قلات جو اس وقت کا دارالحکومت تھا پر قبضہ کیا۔
آغا عبدالکریم نے قابض دشمن کے خلاف بغاوت کیا اور سر لٹھ کے پہاڑی سلسلے میں کیمپ کیا۔ مگر ایک منظم فوج نہ ہونے کے باعث زیادہ دیر تک مزاحمت جاری نہ رکھ سکے۔
انیس سو ساٹھ کے دہائی میں 80 سالہ نواب نورز خان نے اپنے چند ساتھیوں سمیت آزادی کیلئے پہاڑوں کا رخ کیا اور قابض فوج کے خلاف بغاوت کی چونکہ اس وقت تنظیم اور قیادت نہیں تھا۔ نوروز خان نے تنِ تنہا قابض فوج سے قرآن پاک کا واسطہ لے کر پاکستان سے مزاحمت کو ختم کیا۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد نوروز خان کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے زندان میں بند کیا اور سات ساتھیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ جب ان سات جوانوں کو پھانسی دیا گیا تھا انہوں نے اپنے گلے میں قران شریف لٹکایا اور کہا پاکستان قران شریف سے دھوکہ کررہا ہے۔
پاکستانی کچھ علما کہتے ہیں کہ لفظ پاکستان کامعٰنی لاالہ اللّہ ہے اور قرآن پاک تب سے لے کر آج تک قابض فوج کے پاؤں تلے روندا جا رہا ہے اور کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔
جب 1970 کی دہائی میں نام نہاد بھٹو کی جمہوری حکومت تھی، اسی دوران کئی بلوچوں کے گھروں پر بمباری کیا گیا جس سے کئی نوجوان، خواتین اور بچے شہید ہوگئے اور بقول شیرو مری کہ ہمارے عورتوں اور بچوں کو فوج اٹھا کر لے جاتی تھی اور ہم اپنے عورتوں کو منڈیوں سے واپس خریدتے تھے۔ اور اسی طرح بلوچوں پر ظلم و ستم بربریت جاری رہا BSO اور BNYM کی نوجوان قیادت نے جھد مسلسل کے ذریعے سیاسی مزاحمت کو جاری رکھا، جس میں کئی نوجوان اس جدوجہد میں شریک تھے ،شہید فدا بلوچ بھی اور کئی رہنما جو اس جد و جھد کے دوران رہنمائی کا فرض ادا کرتے رہے لیکن ایک دن شہید فدا بلوچ کو آستین کے سانپوں شرابی اور معاشرے کے بد فعل کرداروں نے فائرنگ کرکے شھید کیا۔
بعد میں کئی نام نہاد رہنماؤں نے NP/BNP کے نام پر پاکستان کی پارلیمان میں قدم رکھا اور اپنے راستے الگ کیئے۔ جبکہ فدا احمد ، اور حمید بلوچ جیسے بے باک رہنما شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے۔
غلام محمد جیسے مدبر ساتھی بھی کچھ وقت کیلئے حالات سے مجبور ہوکر خاموش ہوئے، مگر اندر ہی اندر ایک بڑے منصوبے کے تیاری کرتے رہے ۔ جب خیربخش گرفتار ہوئے اور بلوچستان میں ایک بار پھر مسلح جد و جھد کا آغاز ہوا تو غلام محمد بلوچ نے ایک بار پھر اپنے سخت موقف پر کار بند رہتے ہوئے میدان میں قدم رکھا، بی این ایم کی نام پر سیاسی پارٹی کا اعلان کیا جبکہ اللہ نذر نے بی ایس او آزاد کی نام پر بلوچ طالب علموں کو حقیقی سیاست کی جانب متوجہ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے موبلائزیشن کا عمل پھیلتا گیا بلوچستان کے کونے کونے میں آزادی کا پیغام لے کر نوجوان تبلیغ کرتے رہے ۔ بلآخر نوجوانوں اور غلام محمد کی محنت نے رنگ لایا نوجوان جوق در جوق بلوچ جھدِ آزادی میں شامل ہوتے گئے ۔ ریاستی ظلم و جبر میں بھی تواتر کے ساتھ تیزی آتی گئی اغوا ٹارچر قید با مشقت اور آپریشنوں سے جب بلوچ قوم کے فرزند جھدِ آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے تو انہیں اغوا کرکے بعد شدید تشدد کے بعد بہمیانہ طور پر اپنے عقوبت خانوں میں شہید کرکے ان کی لاش ویرانوں میں پھینکنے لگا ۔ اس مارو پھینکو پالیسی کے زد میں تو شروع سے غلام محمد شیر محمد اور لالا منیر آگئے۔ مگر اس تسلسل میں کئی بلوچ لکھاری، طالب علم ، وکیل، اور سیاسی کارکن آتے گئے اور بلوچ قوم تاہنوز اسی ریاستی مارو پھینکو پالیسی کے زد میں ہے جس سے اب عورتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
دوسری جانب بلوچ نوجوانوں نے وطن کی آزادی کیلئے روپوشی کا راستہ اپنایا اور اپنے خون سے آزادی کی جھد کا آبیاری کررہے ہیں جس کی تسلسل تاحال جاری ہے ۔ اب تو اس میں مزید شدت آئی ہے جو شہید جرنل اسلم بلوچ کی مرہون منت ہے جس نے اپنے لخت جگر کو بلوچستان کی بیرک میں لپیٹ کر شہید ہونے کیلئے روانہ کیا یعنی کہ اب تواتر کے ساتھ فدائی حملے بھی جاری ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بلوچ کیسے دہشتگرد ہوئے۔ تو اس کا صاف جواب یہی ہے کہ وہ صرف پاکستان کی نظر میں دہشتگرد ہیں جب کہ حقیقی معنوں میں وہ اپنے سرزمین کی آزادی کیلئے ایک بھیانک جنگ لڑ رہے ہیں جس طرح دنیا کے دیگر قوموں نے اپنے آزادی کیلئے اسی طریقے کو اپنایا تھا۔
دنیا کے تمام قوموں کو آزادی کا حق یو این کے چارٹر نے دی ہے اور یہ انسانوں کا فطری و پیدائشی حق ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا۔
اگر اسی لیئے بلوچ دہشتگرد ہیں تو اس زاویے اور طریقہ کار سے تو پاکستان کے علاوہ دنیا کے تمام اقوام دہشتگرد تھے اور ہیں کہ جنہوں نے آزادی کی جنگیں لڑی۔ وگر نہ یہ انعام کا ملک صرف انگریز کی آشیرواد سے صرف پنجابیوں کو ملا ہے نہ کوئی جنگ لڑی ہے اور نہ ہی کوئی قربانی دی ہے کسی ایک نے اس پاکستان کیلئے تو سو ہم دہشتگرد نہیں آزادی کے خواہاں ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔