ہمارے سوشل میڈیا اکٹیویسٹ
تحریر: کوہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارے جو سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس ہیں وہ دو قسم کے ہیں ایک وہ ہیں جونہیں جانتے سوشل میڈیا کو استعمال کیسے کرتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو جانتے ہیں استعمال کیسے اور کس وقت میں کس انداز میں کر لینا چاہیے۔ مگر جو جانتے ہیں آج کل وہ بھی ان میں شمار ہو رہے ہیں جو نہیں جانتے ہیں۔کیونکہ جو لوگ جانتے ہیں کہ کس طرح استعمال کر لینا چاہیے وہ سوشل میڈیا پہ دیکھائی نہیں دیتے ہیں جو نہیں جانتے ہیں وہ تو دیکھائی دیتے ہیں مگروہ خود نہیں جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور دوسرے بھی نہیں جانتے ہیں یہ کیا کر رہے ہیں۔
کچھ سال قبل جب پاکستانی فوج نے بلوچ سیاسی کارکنوں اور طالب علموں کو اغواء کرنا اور پھر انہیں شہید کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینکنا شروع کیا تو ہم فوجی آپریشنوں اور فوجی بربریت کے خلاف پریس کلبوں یا سڑکوں پہ احتجاج کرتے تھے۔ یا کوئی اسٹیڈی سرکل وسیمینار یا ورکشاپ ہوتے تھے تو اس وقت میں نے ایک چیز نوٹ کیا تھا کہ ہمارے جتنے بھی ذمہ دار اور سینئر دوست تھے ہر وقت لیٹ آیا کرتے تھے۔ حقیقت میں یہ لوگ یہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم مصروف ہیں اور ہمارے کام بہت ہیں مگر حقیقت کچھ اور تھا، اور ہے۔ کسی دوست کے مطابق جب میں نے ایک وقت ذمہ داری سنبھالا تھا تو مجھے ایک سینئر دوست نے یہی کہا تھا کہ جب آپ کو کسی پروگرام میں جانا ہو تو آپ لیٹ جایا کریں تاکہ لوگوں کو یہ لگے آپ مصروف شخص ہو۔
حالت ہر روز خراب ہوتے گئے ہمارے تربیتی پروگرام اور احتجاج سوشل میڈیا پہ آگئے اور ہمارے دوست ابھی بھی مصروف ہونے کی ناکام کوششوں میں لگے ہیں۔آپ ہلکی نظر دوڑائیں آپ حقیقت سے خود بخود واقف ہونگے ہمارے وہی مصروف شخص ہر وقت گود میں گیٹار اور گلے میں کینان کیمرہ لے کر انسٹاگرام پہ اسٹوری اور وٹس ایپ پہ اسٹیٹس ایڈیٹ کرنے میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں۔ا ور اگر کسی دن سوشل میڈیا پہ کوئی کیمپین یا کوئی اور پروگرام چل رہا ہو وہ لوگ آپ کو پورے دن میں نظر نہیں آئینگے۔اور رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پہ آکر ایک ایسا ٹویٹ کرتے ہیں کہ اس طرح لگتا ہے کہ پوری دنیا تو انتظار کر رہا تھا کہ جناب آپ آئیں حکم کریں اور آپ کے حکم کی تعمیل بس ہوگی۔
حقیقت میں ہم فضول کے کاموں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور فائدہ مند کاموں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اگر کوئی فیس چینجرایپ مارکیٹ میں آئے ہمارے لوگ اس ایپ کے ذریعے اپنے تصویر کو دس طریقے سے تبدیل کرکے اپلوڈ کرتے ہیں۔ اور گھرکے سارے کھڑکی اور دروزاے بند کرکے کمرے کو اندھیرہ کرکے جگجیت کی کوئی غزل لگا کر کھڑکی سے آنے والی روشنی کو فوکس کرکے ویڈیو بناکر اپنے اسٹیٹس یا اسٹوری پہ اپلوڈ کرنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔مگر جہاں پہ فائدہ مند کوئی پروگرام سوشل میڈیا پہ چل رہا ہو آپ وہاں کسی کو نہیں دیکھوگے سوائے کچھ چھوٹی سی لڑکیوں کے اور کچھ چھوٹے بچوں کے جو خود نہیں جانتے ہیں کہ ہم کیا اور کیوں کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے لوگ چلتی ریل گاڑی میں کھیتوں کی ویڈیو بناکر اورگلی یا پارک میں بچوں کو بھاگتے دیکھ کر انکی ویڈیو بناکر، یاکسی کوفی شاپ میں بیٹھ کر اس کوفی کی تصویر نکال کر انسٹاگرام اسٹوری اوروٹس ایپ اسٹیٹس پہ اپڈیٹ کرنے اور کسی فیس ایپ کے ذریعے اپنے آپ کو بوڑھا کرکے پھر وہی تصویر کو سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کرنے کو بھی سوشل میڈیا پہ اکٹیو ہونا سمجھتے ہیں۔
کھبی کھبی مجھے لگتا ہے ہم اس طرح احساس برتری کا شکار ہیں کہ ہم اپنے آپ کو کسی عالمی ادارے یا کسی ملک کا سفیر سمجھتے ہیں اگر کوئی عرب لڑکی یا کوئی اور کسی اور ملک میں سیاسی پناہ کی تلاش میں کہیں پہنچ جائے اوروہاں اتفاق سے ہمارا کوئی دوست پہلے سے سیاسی پناہ کی تلاش میں اپنے کاغذات لئے ہر روز دفتروں کے چکر کاٹ رہا ہے اگر اس کو پتہ چلے کوئی یہاں سیاسی پناہ کی تلاش میں پہنچ چکا ہے تو ہم سب سے پہلے اس کو اس طرح ویلکم کرتے ہیں جس طرح وہ ملک ہمارے باپ داداؤں کی ملکیت ہے۔
ہمارے لوگ کھبی کھبی حد بھی کر دیتے ہیں اپنے لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں بولتے ہیں اور اگر کسی دن دنیا کے اس کونے میں ایک بڑا مسئلہ ہو تو ہمارے وہی مصروف شخص صبح ساڑھے پانچ بجے اس پہ بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور وہ خود بھی جانتے ہیں اس مسئلہ پہ ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں اور اس سے مجھے کچھ فائدہ بھی ہونا والا نہیں ہے پھر بھی اپنے آپ کو بڑا آدمی ظاہر کرنے میں اس میں کھود پڑتے ہیں۔ اوئے جناب،کیا پدی اورکیا پدی کاشوربا!! آپ بھی اپنے حقیقت کوجانتے ہیں دوسرے بھی آپ کے حقیقت سے واقف ہیں۔ پھر ایسا کیوں کر تے ہیں۔؟
کچھ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پورے سال میں شوال کے چاند کی طرح صرف ایک بار دیکھائی دیتے ہیں اور اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں وہ تو بہت مصروف لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت میں ان لوگوں کی مصروفیات کا اصل پتہ جب چلتا ہے اگروہ آپ کے وٹس ایپ یا انسٹگرام پہ وہ ایڈ ہیں تو آپ جب بھی اسٹیٹس یا اسٹوری اپلوڈ کرتے ہیں سب سے پہلے پانچ منٹ کے اندر دیکھنے والوں میں وہ شمار ہوتے ہیں۔
ہم تو کہتے ہیں سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر کوئی آسانی سے اپنے مسائل کو اچھے طریقے سے اجاگر کرسکتا ہے مگر ہم لوگوں کی سب باتیں صرف صرف اسٹیٹ منٹ اور نجی محفلوں تک محدور ہوتے ہیں عملی میدان میں کچھ نہیں یہ ذمہ داری پارٹی اور آرگنائزیشنوں کی ہے سوشل میڈیا کے حوالے سے اچھی سی حکمت عملی بنائے اور ہرکسی کو اپنی اپنی ذمہ داری دے۔ اگر کسی کی جگہ زمین پہ ہے آپ اس کو آسمان تک پہنچاؤگے تو وہ مصروف ہو یا نہیں مصروف ہونے کا دیکھاؤ کریگا اور زمین میں رہنے والوں کو انکی اصلیت بھی بتانا بھی پارٹی اور آرگنائزیشنوں کی ذمہ داری ہے اگر ہم مصروف نہیں ہے پھر مصروف ہونے کا دیکھاؤ کرتے ہیں تو دکھاؤ سے کچھ نہیں ہوگا سچائی کا سامنا کرکے مخلصانہ انداز میں اپنے کام کو آگے لے جانا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔