ہائے بلوچستان
محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ
میرے اکثر و بیشتر نوشت میں موضوع سخن بلوچستان رہا ہے. لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے اپنے قلم کو خواب خرگوش کے مزے لینے میں مشغول رکھا ہوں. انسان اگر اس خواب میں پڑا رہ جائے تو دنیا کا کاہل اور بزدل ترین شخص قرار پائے گا لیکن اگر قلم رہ جائے تو زنگ لگ جائے گا. پھر وہ ایک لفظ لکھنے کا بھی قابل نہیں ہوگا. اب میرے قلم کو بھی زنگ لگ گئی ہے. کئی دفعہ صفحے گود میں رکھ کر قلم کے نِب کو رگڑ دیا لیکن کچھ نشان نہیں چھوڑا. اب میں کروں آخر کیا؟
خیر میں چونکہ اب سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں. ابھی دو الفاظ لکھنا سیکھا ہوں. ان کا ترتیب اور قواعد و انشاء بھی بگڑے ہوتے ہیں. میں تو ان کے طرف دیکھ رہا ہوں جو کئی سالوں سے لکھتے چلے آرہے ہیں. ہم تو ان کے نوشت کے الفاظ نقل کرتے ہیں. ہم تو نقل خور ہے. اب اگر نقل نہ مل جائے تو اس میں میرا کیا قصور؟ چاہے بلوچستان میں جتنی بھی ظلم و زیادتی ہو. میں تو کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہوں. جب تک بلوچستان کا دانشور, لکھاری, جرنلسٹ اور تجزیہ نگار کچھ نہیں لکھے گا میں تو کچھ نہیں لکھ سکھوں گا.
میں تو جب موجودہ ناانصافیوں کے بارے میں سنتا ہوں تو فورا لکھاریوں کے آئی ڈیز چیک کرتا ہوں کہیں کچھ نقل کرنے کا موقع مل جائے. نقل کے مدد سے اپنے کو بھی لکھاریوں کے قطار میں شامل کرنے کا ایک ناکام کوشش کرتا ہوں. لیکن جب اگر کوئی لکھاری خود اپنے قلم کو کسی کونے میں پھینک دے اور خود کو معاشرے سے اتنا بے خبر کرے کہ کچھ پتہ ہی نہیں کیا ہورہا ہے تو پھر ہم جیسے نقل خور سے کس چیز کا گلہ کرتے ہو…دوستو؟
اے دوستو! آج میں آپ کے ان کمنٹ کے جواب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں جو آپ خیر خواہ مجھ سے یہ کہہ کر گلہ کررہے ہو کہ طلبہ و طالبات کے زندگی کو تعلیمی اداروں میں اجیرن بنا دیا گیا ہے لیکن آپ کچھ نہیں لکھتے نہ کچھ کہتے ہو.
میں آپ سے پیار بھرے الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوکر کہتا ہوں دوست! بلوچ قوم کی زندگی کب آسودہ رہا ہے؟ کب بلوچ قوم کی بیٹیوں کے عزت محفوظ رہے ہیں….. کس نے بلوچ قوم کے ساتھ ناانصافی نہیں کی ہے….. کب بلوچ قوم کے نوجوان کو پرامن ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہے……. کب بلوچ نوجوان احتجاج سے فراغت حاصل کی ہو…….. کب بلوچ مائیں اپنے جوان بیٹوں کیلئے پریشان نہیں ہوئی ہو……. کب بوڑھے باپ کے جوان بیٹے کو اس کے زندگی کے آخری دنوں کا سہارہ بنے کا موقع دیا ہو…….. کب بلوچستان کے سرزمین پر ناحق خون بہنا روک گئی ہے …… کب عورتوں کا عزت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ تھم گیا ہے……….. کب بچوں کو مزدوری کرنے سے جان چھڑانی کا موقع ملا ہو….. کب تعلیمی اداروں کے سربراہان بلوچ قوم کے بچوں کے سر پر دست شفقت رکھا ہو؟
اگر یہ کھبی نہیں ہوا ہے تو پھر ہمیں کیوں چھیڑتے ہو۔ یہ ناانصافی اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک بلوچ قوم تقسیم در تقسیم کا شکار ہے. جب تک بلوچستان کے نوجوان اپنے ذات تک کامیابی حاصل کرنے کو ترجیح دیں گے. بلوچستان بس ایک نعرہ ہی رہے گا. بلوچ قوم ایک شوشہ رہے گا. باقی سب کچھ اپنے مفادات کا جنگ. حرص و لالچ میں اپنے ذات کا سوچ. ہائے بلوچستان تیری قسمت.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔