بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3761 دن مکمل ہوگئے۔ وکلاء برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں دیکھیں تو قابض کا کوئی خاص عمر نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کچھ دیر کسی دوسرے ملک پر قبضہ برقرار رہا، یہی پاکستان بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت طاقتور نہیں تھا کہ جہاں پاکستانی فوج نے ہزاروں بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی، جہاں تک نا اتفاقی کی بات ہوتی ہے اگر ہم تاریخ کو دیکھیں وہاں آپ کو کوئی ایسی جدوجہد نظر نہیں آتی جہاں کسی ملک یا قوم کی پوری آبادی جدوجہد پر متفق ہوئی ہو اگر اس طرح ہوجائے تو ریاست کی دلالی اور کاسہ لیسی کون کرے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فرعون جیسے برج زمین بوس ہوگئے، عقلمند اور باضمیر افراد کو اداراک ہے کہ سچائی کے سمندر میں موجوں کا غیض و غضب بڑا بھیانک ہوتا ہے اور جو ان سے ٹکرائے گا ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوکر نشان عبرت بن جائے گا۔ سیاسی مداریوں اور دھوکہ بازوں کے علاوہ اس کے انگنت مخبر اور کئی ڈیتھ اسکواڈ بھی ہیں جو سیاسی دکاندار ہونے کیساتھ لاپتہ کرو، تاوان وصول کرو اور مارو کی پالیسی کو آگے بڑا رہے ہیں تاکہ پھر کبھی وہ سرنہیں اٹھائے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان واقعات کو دیکھ کر کچھ لوگ مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے لفاظیت کا سہارا لیتے ہیں مگر حقیقت میں یہ ان کی دوغلی پالیسی اور گماشتگی پر مبنی ایجنڈے کا حصہ ہے ان سے کسی قسم کی خیر سگالی کی امید کا انجام محض مایوسی ہے۔