کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3736 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر و سینیٹر اکرم دشتی اور غفار قمبرانی نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
نیشنل پارٹی کے رہنماء و سینیٹر اکرم دشتی اور غفار قمبرانی نے کہا کہ لوگوں کا جبری طور پر لاپتہ ہونا ہے ایک المیہ ہے، ماما قدیر سمیت دیگر لواحقین سالوں سے احتجاج کررہے ہیں لیکن اس حوالے سے مطمئن کن پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ملکی قوانین کے تحت حل ہونا چاہیئے، اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے ان پر کیس چلایا جائے۔
اس موقعے پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان کے خفیہ اداروں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے باوجود بلوچ فرزندوں، ماؤں، بہنوں کی اپنے لخت جگرو ں کی بازیابی کے لیے ان کے جذبے میں کمی کے بجائے مزید شدت اور نمایاں کامیابی آئی ہے، وہاں عالمی برادری بھی اس بات کی اچھی طرح ادراک کرچکی ہے کہ جنوبی ایشیاء جیسے اہم خطے میں امن و آشتی کا راز بلوچ کی پرامن جدوجہد اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں ہے۔
انہوں نے کہا بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف گمراہ کن اور بے بنیاد پروپیگنڈے میں ناکامی کے بعد اب پاکستان نام نہاد قوم پرستوں کے ذریعے بلوچ قوم کی محکومی پر مہر ثبت کرنے کا خواب دیکھ کر اپنی اَنا کو تسکین پہنچانے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف ہے، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ پاکستان کے تمام ادارے پارلیمنٹ، عدلیہ، نوکر شاہی و دیگر محکوم قوم کی بربادی کا سامان پیدار کرکے اس کی محکومی کو برقرار رکھنے کے لیے ہی ہوتی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان کے کسی بھی ادارے سے خیر کی توقع رکھنا محکوم قوم کے لیے اپنے آپ کو دھوکہ دینے اور اپنی بقاء و تشخص کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں، پاکستان اپنے تمام حربوں اور ظلم و جبر کی پالیسیوں کو آزمانے کے باوجود پارلیمانی بیساکھیوں کا سہارا لیکر اپنے زرخرید پارلیمانی حواریوں کی گود میں پناہ تلاش کررہا ہے، بلوچ کا سودا کرنے کے خواہشمند بے ضمیر افراد کو بلوچ قوم ظاہر کرکے اور قوم پرستی کا لبادہ پہناکر اپنے پارلیمنٹ میں لے جاکر دنیا کو تاثر دینا چاہتی ہے کہ بلوچ قوم ریاست کے کیساتھ ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہے۔