کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3746 دن مکمل ہوگئے، نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء میر عبدالغفار قمبرانی نے اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مظلوموں پر تشدد ظلم و جبر اور غلام رکھنے پر قدرت حاصل ہے وہ طاقت کا کھلے عام اور بے دریغ استعمال کرتا ہے اب تک مسخ شدہ لاشیں ملی تھی، آبادیوں پر بمباری کی گئی لیکن نسل کشی کیسی ہوتی ہے آج دنیا کے سامنے بے شمار مثالیں ہے، بنگالیوں کا قتل عام ہم نے اپنے دور میں براہ راست پاکستان ہی کے ہاتھوں دیکھ چکے ہیں، بلوچستان میں پاکستان کی پوزیشن بنگلا دیش کی نسبت زیادہ مستحکم ہے پاکستان آج کہیں زیادہ طاقت رکھتا ہے اور اس طاقت کا کھلے عام استعمال کرتا رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں زیادہ وسیع پیمانے پر کریگا تب یہ ظلم و جبر، مسخ شدہ لاشوں کی نسبت زیادہ سنگین اور بربریت پر مبنی ہوگا اگر پاکستان کی ریاست چائے تو اپنی تمام تر کام چھوڑ کر بلوچ قوم کے خاتمے پر لگ جائے لیکن فیصلہ ہوچکا ظالم کا تشدد اپنے انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا سامراج تاریخ نہیں بناسکتا وہ غلام بناسکتا ہے، تقسیم کرسکتا ہے، ظلم کرسکتا ہے، تباہی لاسکتا ہے لیکن کبھی کوئی تعمیری کام نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کے وجود میں اور معروضی حقائق میں تضاد ہے تعمیر میں اس کی موت ہے اس لیے وہ صرف تخریب ہی تخریب کرسکتا ہے۔ پاکستانی نے سامراجی استعماری قوتوں کی روایت کو زندہ رکھنے ہوئے بلوچ قوم میں بھی چند ایسے گماشتے ڈھونڈ نکالے جو بکاؤ مال کی طرح اپنی بولی لگنے پر قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر بلوچ قوم کو ورغلاکر پرامن جدوجہد سے بدظن کرنے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا میڈیا اس کے سیاستدانوں سمیت تمام ریاستی مشینری اس وقت خاموشی تھی جب بلوچ کی لاشیں گررہی تھی اور ان کے گھروں پر بمباری ہورہی لیکن آج سارے چلارہے ہیں گہرے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہیں پر معصومیت کے گہرے جذبات کا اظہار کیا جارہا ہے تو کہیں پر بلوچ قوم کو سنجیدہ مشورے دیئے جارہے ہیں کیونکہ اب انہیں نظر آرہا ہے تو کہیں سب کچھ الٹا ہورہا ہے جتنی شدت سے طاقت استعمال کی جارہی ہے اتنی ہی شدد سے شکست ان سے قریب تر ہورہی ہے۔