دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، نوازعطا بلوچ اور دیگر کے لیے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے کی قیادت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن طیبہ بلوچ و دیگر نے کیا ۔
قبل ازیں انتظامیہ نے مظاہرین کو احتجاجی ریلی نکالنے سے روکھنے کی کوشش کی گئی تاہم لواحقین نے اپنا احتجاجی ریلی جاری رکھا ۔
اس حوالے سے مظاہرے میں شریک خاتون نے کہا کہ ہم اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کرنا چاہتے ہیں جو ٹارچر سیلوں میں اور زندانوں میں بند ہے جن کے حوالے سے ہمیں کسی قسم کی معلومات نہیں مل رہی ہے۔ ہمارے پیاروں کو عدالتوں میں لانے کی بجائے پریس کلب کے سامنے اسسٹنٹ کمشنر کے سربراہی میں فورس جمع کرکے ہمیں احتجاج سے روکھنے کی کوشش کی گئی۔
خاتون نے کہا کہ ہمیں آواز اٹھانے کے حق سے بھی محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لواحقین کو وزیر اعلیٰ ہاوس جانے روکھا گیا جس کے باعث ہمیں احتجاجی ریلی محدود کرتے ہوئے واپس پریس کلب آنا پڑا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کو گذشتہ سال متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا بعدازاں پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ انہیں انٹرپول کے ذریعے پاکستان منتقل کردیا گیا ہے ۔
اس حوالے سے راشد حسین کی ہمشیرہ فریدہ بلوچ نے ٹی بی پی نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کرکے چھ مہینے تک اپنے حراست میں رکھا جہاں انہیں کسی قسم کی قانونی حقوق نہیں دیئے گئے جبکہ پاکستانی میڈیا کے دعووں کے برعکس راشد حسین کو غیر قانونی طور پر پرائیویٹ طیارے کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا جس کے ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے ۔
فریدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ راشد حسین کے طرح انسانی حقوق کے کارکن عطانواز بلوچ بھی جبری گمشدگی کا شکار ہے جنہیں گذشتہ سال کراچی سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عطا نواز بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سرگرم رکن تھے جنہیں لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں سزا دی جارہی ہے ۔
فریدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ راشد حسین، نواز عطا سمیت تمام لاپتہ افراد کو ان کے قانونی حقوق دیئے جائے اگر وہ مجرم ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے انہیں سزا دی جائے۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور لاپتہ افراد کے بازیابی کے حق میں نعرے لگاتے رہے جبکہ ریلی کے دوران لاپتہ بلوچ طلباء رہنما ذاکر مجید بلوچ کی والدہ بے ہوش ہوگئی۔
احتجاج میں شریک خضدار سے لاپتہ عبدالقدیر بلوچ کی ہمشیرہ نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو 23مارچ 2009 کو سیشن کورٹ خضدار کے سامنے سے ان کے دو ساتھیوں عطاء اللہ بلوچ اور مشتاق بلوچ کے ہمراہ فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بھائی کے بازیابی کے لیے میں نے ہر جگہ دستک دی لیکن تاحال ہمیں انصاف نہیں مل سکا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ اور دیگر ادارے بلوچ لاپتہ افراد کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس جاوید اقبال نے ہمیں تسلی دی تھی کہ ایک ہفتے کے اندر میرا بھائی بازیاب ہوگا لیکن وہ تاحال لاپتہ ہے، میں جاوید اقبال سے سوال کرتی ہوں کہ میرا بھائی کہاں ہے انہیں آسمان کھا گئی یا زمین نگل گیا۔
لواحقین کی جانب سے تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے، انہیں قانونی حقوق دینے، بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ بلوچ خواتین کے گمشدگی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔