کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

155

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3754 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے کارکنان اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہا یکجہتی کی۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جارحیت اور نہتے بلوچوں کی شہادت پاکستان کے جبر کی ایک اور مثال ہے آج پورے مستونگ، سوئی سے لیکر تربت مند اور بولان تک کوئی ایسا علاقہ نہیں جس نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں زخم نہ کھائے ہوں، ایک طرف پاکستانی ایجنسیاں اپنے ڈیتھ اسکواڈ کی مدد سے سیاسی کارکنان، طلباء اور ہمدردوں کو لاپتہ اور ٹارچر کرکے ان کی لاشیں ویرانے میں پھینک رہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی فوج براہ راست فوجی آپریشن کے ذریعے جدید ترین جنگی سازوسامان کی مدد سے بلوچ آبادیوں پر بم برسارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم تمام تر مصائب کے باوجود کسی دباؤ میں نہیں آئیگی، جب تک 47 ہزار لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوتے ہیں ہم آواز بلند کرتے رہینگے۔ پاکستان نے بلوچ عوام کو بذریعہ طاقت ختم کرنے کے لیے اپنے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں اور نام نہاد سیاست کرنے والوں کے ساتھ مل کر لواحقین کی آواز کو دبانے کی حکمت عملی بنائی ہے مگر تاریخ گواہ ہے قومیں قتل ہونے سے ختم نہیں ہوتے ہیں ایسا ہوتا دنیا میں آج آزاد قوموں کے طور پر جانے جانیوالے افراد کا وجود ختم ہوجاتا جنہیں کل اسی طرح قتل عام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ آج ہماری خواتین مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کررہی ہے جس طرح ہم آج دیگر مظلوم اقوام کے لیے صرف ہمدردی کا اظہار کرسکتے ہیں اسی طرح دیگر اقوام بھی ہمارے لیے صرف ہمدردی رکھ سکتے ہیں لیکن جدوجہد ہمیں کرنی ہوگی، تکالیف برداشت کرنی ہوگی اور قربانیاں دینی ہوگی۔ آج سیاسی عمل کو زیادہ اہمیت دیا جاتا ہے اور ہم سیاسی عمل کو مضبوط کرکے دنیا پر یہ واضح کردیں کہ بلوچ اپنے عورتوں کو گھروں میں قید نہیں رکھتے، خواتین کی جدوجہد قابل تعریف ہے سب قربانیاں دے رہے ہیں آج بلوچ قوم بھی اسی راہ پر چلتے ہوئے قربانیوں سے گزررہی ہے وہ اپنے لخت جگر پیاروں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کررہ ہے جبکہ شہادت کے بعد ان کی قربانیاں اور ان کا دیا ہوا راستہ قوم کی راہنمائی کرتا ہے۔