بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3747 دن مکمل ہوگئے۔ ژوب سے سیاسی و سماجی کارکن اختر شاہ اور ان کے ساتھیوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان خاص کر مکران میں پے درپے فوجی کاروائیاں اور انسانی حقوق کے چمپئینز کی خاموشی کے باعث بلوچستان میں جنگ و جدل کی فضاء روزبہ روز تیز ہوتی جارہی ہے بلوچستان پر پاکستانی حکمرانوں کا صرف سکھ چین ہی نہیں لوٹا بلکہ انہیں مزید سفاک بنا دیا ہے جس کا وحشیانہ مظاہرہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جنگی قوانین و اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بلوچ نسل کش فوجی کاروائیوں میں لائی جانے والی شدت کی صورت میں کیا جارہا ہے ان فوجی کاروائیوں میں عام بلوچ آبادیوں میں بہیمانہ بمباری، گھروں کو نذر آتش کرنا خواتین و بچوں اور بوڑھوں سمیت نہتے بلوچوں کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا اور انہیں اٹھاکر غائب کرنا پھر ان کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے ویرانوں، دریاؤں اور اجتماعی قبروں میں دفن کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنے زرخریدوں کے ذریعے بلوچ طلباء، نوجوانوں، سیاسی کرکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنا اور دیگر بلوچ نسل کش اقدامات شامل ہیں۔ پاکستانی فورسز کی ان سفاکانہ کاروائیوں کو پوری دنیا جنگی جرائم تسلیم کرتے ہوئے اس کی فوری روک تھام پر زور دے رہی مگر ریاستی فورسز اور حکمران قوتیں بلوچ پرامن جدوجہد کی کامیابیوں کے صدمے سے اس قدر بہری ہوچکی ہے کہ انہیں روکنے والی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی فوجی کاروائیوں میں اب تک سینکڑوں کی تعدد میں لوگ زخمی اور لاپتہ کیے جاچکے ہیں جبکہ متعدد افراد ان آپریشنوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ یہ تمام بلوچ کش کاروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔