کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3742 دن مکمل ہوگئے۔ مستونگ سے سماجی کارکن بدل خان اور کلیم اللہ بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر خیالات کا اظہار رکرتے ہوئے کہا کہ سن 2000ء سے بلوچستان میں نہتے شہریوں، سیاسی کارکنان سمیت سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی رکھنے والوں کو نشانہ بنایا گیا، پاکستانی فورسز نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو اٹھاکر لاپتہ کیا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، ہزاروں لاپتہ افراد کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں مختلف علاقوں اور ویرانوں میں پھینکی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام ادارے خواہ وہ میڈیا ہو یا عدلیہ اور پارلیمنٹ سب پاکستانی خفیہ اداروں کے حواری ہے جنہوں نے بلوچ قوم کو مکمل ایک دشمن قوم کی حیثیت سے ظاہر کیا ہوا ہے۔ پاکستانی ادارے عالمی برادری کو ان ناجائز گرفتاریوں پر بلوچ جدوجہد کے خلاف گمراہ کررہے ہیں، پاکستانی فوج اپنے جرائم چھپانے کے لیے مختلف قسم کے جھوٹ، حیلہ سازی و دھوکہ دہی کا سہارا لے رہی ہے جبکہ حقیقت یہی ہے کہ بلوچ لاپتہ نہیں ہے بلکہ پاکستانی فورسز کے حراست میں ہے جو بالکل دہشت گرد نہیں ہے بلکہ وہ جنگی قیدی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن جدوجہد کررہے ہیں، پاکستانی فورسز بلوچوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش میں ہے، باہر کے ملکوں سے ملنے والی امداد کو بلوچوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے لہٰذا اب عالمی برادری کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہیے اور بلوچ مسئلے کو جانچنا چاہیے، ریاست پاکستان نہ صرف اس خطے کے لیے ایک سیکورٹی رسک ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اقدام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کے معاملے کی تہہ تک پہنچ کر بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان خاندانوں سے اصل حقائق، ڈیٹا جمع کریں اور انہیں ان کے پیاروں تک رسائی میں مدد فراہم کرے۔