انسانی فطرت اور نفسیات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، یہ بات حقیقت ہے کہ معروضی حالات ہی انسانی نفسیات پر اثر ڈالتی ہے اور انہی کے مطابق انسان اپنے آپ کو ڈھالنے کی جدوجہد کرتا ہے، لالچ انسانی نفسیات کا وہ جز ہے جس کی وجہ سے دنیا میں جنگوں نے جنم لیا جب انسان اپنی اس خواہش کی تکمیل میں دوسرے انسانوں کا استحصال کرنے لگتا ہے، یا قومیں دوسرے قوموں کو قبضہ کرنے لگتے ہیں تو ایسی صورتحال میں قبضہ گیر کے خلاف وجود کا احساس جنم لینے لگتا ہے اسی وجود کی خاطر ردعمل میں فرد یا قوم جنگ کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ میں وفود سے گفتگو کے دوران کیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3740 دن مکمل ہوگئے جبکہ سیاسی و سماجی کارکن منظور کاکڑ اور طاہر بلوچ سمیت دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کیا۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ درد سے انسان سوچتا ہے جبکہ سوچ سے پہلے انسانی بصیرت جنم لیتی ہے اور اسی بصیرت کے باعث فیصلے اپنائے جاتے ہیں عین اسی طرح غلاموں پر ظلم و جبر نے درد کا وہ احساس پیدا کیا جس سے غلاموں نے حیوانیت کی زندگی سے نکلنے، انفرادی موت کو گلے لگانے اور اجتماعیت کے وجود کے لیے میدان عمل میں کھود پڑے جس سے آگا اکھاڑے سمیت مٹی میں مل گئے۔ قومیں جب دوسرے قوموں کا استحصال کرنے کی غرض سے قبضہ گیریت کے حواس کے شکار ہوگئے تو آسمان نے دیکھ لیا کہ انسانی لہو کی جھیلیں اپنی بقاء کی خاطر بن گئیں آج کئی اقوام دنیا کے نقشے میں نہ صرف وجود رکھتے ہیں بلکہ کئی ایک دنیا کے بہت بڑے طاقت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ نے اپنے تاریخ کو دہراتے ہوئے پرامن جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، اس دوران کئی رہنماء شہید ہوئے اور کئی بلوچ مرد و خواتین، بوڑھے، بچے اپنے بقاء کے لیے قربان ہورہے ہیں۔