کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے احتجاج جاری

107

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3749 دن مکمل ہوگئے۔ لورالائی سے سماجی کارکن سلیمان کاکڑ، نور خان ترین اور دیگر نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے کیمپ کا دورہ کیا جبکہ اس موقعے پر دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت راشد حسین کے لواحقین بھی موجود تھے جنہہوں نے پریس کانفرنس کی اور راشد حسین کے عدم بازیابی پر احتجاجی شیڈول کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کو آئین و قانون، عدل و انصاف، سماجی سیاسی برابری کی بات کرنے تعلیم، صحت، روزگار انسانی بنیادی ضروریات کا مطالبہ کرنے کے پاداش میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے خاموش کرنے کیلئے غیر انسانی روش اپنائی گئی ہے۔ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کو بروئے کار لاتے ہوئے پوری دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ پاکستانی حکمرانوں کو بلوچ عوام نہیں بلکہ ان کے وسائل چاہیئے اس لیے عوامی حق و انصاف کے مطالبے کو پاکستان میں اہمیت نہیں ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ قوم کی سیاسی، سماجی و تعلیمی نسل کشی کی جارہی ہے۔ بلوچ قوم کو دہشت گرد اور غدار قرار دیا جارہا ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں، سیاسی کارکنوں، طالب علموں، سماجی کارکنوں کو چُن چُن کر لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک غیر فلاحی اور غیر جمہوری ریاست اپنی پوری ریاستی طاقت کے ساتھ ایک طرف رہے اور پھر ایک جانبدار میڈیا اپنے تمام لفافہ دوست صحافیوں، دانشوروں کے ساتھ ریاستی آلہ کار کے طور پر اس کی پشت پنائی کرے، نظریہ ضرورت کی بنیادوں پر قائم عدالتی نظام غیر قانونی اقدامات کو آئینی و قانونی تشریح عطا کرے اور ان سب کا مشترکہ کوشش حق کو باطل، مظلوم کو ظالم، جھوٹ کو سچ، اپنی بقاء کے فطری وصف کو دہشت گردی قرار دینا ہو تو یقینا اس حکومت اور ظالم ریاست کو طویل عرصے تک قائم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔