کرد قومی و انسانی عظمت کی خاطر لڑ رہے ہیں ۔ خلیل بلوچ

244

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چئیرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ شامی سرحد پر ترکی کی جانب سے کردوں کی آبادی پر بمباری نہ صرف انتہائی قابل مذمت ہے بلکہ اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کا تاریخ رقم کرنے والے کردوں کے ساتھ مغرب کی بے وفائی کے طور پر تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ترک فوج کی جانب سے کرد علاقوں پر بمباری کے پانچویں روز بھی امریکہ کی جانب سے خاص اور عملی رد عمل نہ دکھانا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ مشکل گھڑی میں دہشت گردی کے خلاف قوت اور مضبوط نیشنلسٹ ڈھال کو اکیلا چھوڑ چکا ہے۔ ایسے میں تمام ممالک امریکہ سے ہاتھ ملانے سے پہلے کئی دفعہ سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ کردوں نے شام میں امریکہ کے ایک اہم اور موثر اتحادی کا کردار ادا کرکے اپنے گیارہ ہزار جنگجو گنوائے اور داعش کو شکست فاش سے دوچار کیا مگر آج چار سال بعد امریکہ نے انہیں ترکش بمباروں کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

انہوں نے کہا فرانس، جرمنی اور ہالینڈ کی جانب سے ترکی کو ہتھیار فروخت کرنے کی پابندی ایک اہم رد عمل ہے لیکن یہ اقدام ہرگز کافی نہیں بلکہ انسانی عظمت کا تقاضا ہے کہ یورپ اور امریکہ سمیت ساری دنیا کو ان کی پیروی کرنا چاہئے۔ کیونکہ کردوں نے جس طرح نام نہاد دولت اسلامیہ کو شکست دینے میں اول دستے کا کردار ادا کیا، اس پر کردوں کی مدد ساری دنیا کا فرض ہے۔ مشہور کوبانی جنگ میں کردوں کا کردار عالمی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں پہلے ہی درج ہوچکا ہے۔ اب ترکی کی جانب سے کردوں پر چڑھائی اور راجاوا میں بمباری کرد نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان ہزاروں قیدیوں کے بھاگنے اور آزاد ہونے کا سبب بن سکتا ہے جو داعش سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں ان علاقوں پر کردوں پر حملہ براہ راست داعش کی مدد کرنا ہے۔ اس پر ترکی سے سوال کرنا اور اس کے خلاف کھڑا ہونا تمام عالمی طاقتوں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کا اولین فریضہ بنتا ہے۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے کردوں کو ترکی جیسے جابر قوت کے وحشیانہ بمباری کے لئے بے یار و مددگار چھوڑنا مغرب کی نیشنلزم گریز پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ مشرق وسطیٰ کی تباہ کن صورتحال، مذہبی جنونیت اور داعش جیسے عفریت کی ظہورانہی پالیسیوں کا خمیازہ ہے کیونکہ مغربی طاقتوں نے ہمیشہ خطے میں قومی ریاستوں کا قیام کی حمایت کے بجائے مذہبی بنیاد پر قائم پراکسی تنظیموں کے لئے نہ صرف راستے ہموار کئے بلکہ انہیں مدد و اعانت فراہم کی اور ان سے اپنے مفادات حاصل کئے۔ نتیجتاً ان جنونیوں کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل آج تک جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ نے داعش کے ظہور اوراس کے خلاف مغربی اتحاد کے بارے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس جنگ کو مشکوک اور مختلف ممالک کے مفادات کے لئے بٹی ہوئی اور یکسوئی سے محروم قرار دیا تھا۔ شام میں داعش کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں میں ترکی کی طرف سے روسی جہاز کے مار گرانے کے واقعہ نے ثابت کردیا تھا کہ مغرب کی پالیسیاں غیر منصفانہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ یکسوئی اور اندرونی اتحاد سے محروم ہے۔ اس کے نتائج بھی اسی طرح برآمد ہوں گے۔ اور یہی ہوا۔ آج دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانی دینے والا کرد قوم دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔

بی این ایم کے چئیرمین نے کہا کہ گوکہ دنیا کے داعش کے خلاف جنگ الگ الگ مفادات کے خانوں میں منقسم جنگ تھا اور وہ داعش کی عفریت کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے لیکن نیشنلزم کے واضح نظریے پر کاربند کردوں نے اپنے گیارہ ہزار لوگوں کی قربانی دے کر داعش کو شکست فاش سے دوچار کردیا۔ کرد قوم کی داعش کے خلاف جنگ نے ثابت کردیا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے امکانات صرف کرد قومی ریاست میں پنہاں ہیں لیکن یہ فتح کردوں کی سرزمین پر قابض ترکی جیسے غاصب قوت کے لئے اپنی قبضہ گیریت کی موت کے مترادف تھا۔ اس بات کے قوی شواہد موجود تھے کہ ترکی داعش کے مقابلے میں کردوں سے زیادہ خطرہ محسوس کررہا تھا اور وقت نے یہ بات ثابت بھی کر دیا۔

خلیل بلوچ نے کہا دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانی دینے والے کردوں کو تنہا چھوڑنا نہ صرف عالمی طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کے نیشنلزم اور قومی ریاستوں کے امکانات کو کچلنے کے پالیسیوں کا غمازی کرتا ہے بلکہ اس امر کی جانب واضح اشارہ ہے کہ مغربی طاقتیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے لئے تیار نہیں۔ یہ امر دنیا میں امن و سلامتی کے امکانات کے لئے تباہ کن علامت ہے۔ پاکستان اور ترکی جیسے ممالک قومی ریاست کے حصول میں برسرِ پیکاربلوچ اور کردوں کے خلاف مذہبی جنونیت، القاعدہ اورآئی ایس آئی ایس جیسے عفریت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ترکی کا کردوں پر چڑھائی کے فوراََ بعد پاکستان کی جانب سے ترکی کی حمایت دونوں ممالک کی قبضہ گیریت اور دہشت گردانہ پالیسیوں کا مظہر اور یکساں ذہنیت کی عکاس ہے۔ ترکی براہ راست داعش کی مدد اور پاکستان طالبان و القاعدہ کی مدد کر رہا ہے۔ ان دونوں ممالک میں ایک اور مماثلت محکوم اقوام پر جبر اور نسل کشی کا ہے۔ ترکی کردوں کی نسل کشی کا ارتکاب کرچکی ہے اور پاکستان بلوچوں کی۔ کرد اور بلوچ دنیا میں دو ایسی بڑی قوموں ہیں جو اپنی ریاست سے محروم ہیں۔ دونوں کئی ممالک و سرحدوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں امن کیلئے کرد ریاست اور ایشائی ریاستوں میں امن کیلئے بلوچ ریاست اہم کردار اور ضامن ہیں۔ اس پر عالمی مفادات ضرور حائل ہوتے ہیں مگر حقیقت اسی میں مضر ہے۔

بی این ایم چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ترکی نے پاکستان کی طرح اسلامی شدت پسندوں اور پناہ گزینوں کے نام پر عالمی برادری کو بلیک میل کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ ترکی کی جانب سے یہ دھمکی کہ وہ چھتیس لاکھ مہاجرین یورپ بھیج دیں گے، ایک کھلی بلیک میلنگ ہے۔ ساتھ ہی داعش سے خفیہ رابطے، داعش کو تیل کی سمگلنگ اور خرید و فروخت میں مدد اب ایک راز نہیں رہا۔ یہی صورتحال پاکستان کی ہے۔ دونوں ممالک کا ایسی صورتحال میں ایک دوسری کی حمایت ان کے دہشت گردوں کو پناہ دینے کی طویل تاریخی مشترکہ پالیسی ہے۔ ہفتے کے دن ترکی میں کرد سیاسی رہنما ہورین خلف کا ترکش پراکسیوں کی فائرنگ سے قتل بھی پاکستانی طریقہ کار سے مماثلت ہے جو بلوچوں کے خلاف استعمال کی جارہی ہے۔ عالمی برادری کو ترکی کے ساتھ ساتھ اس کی پاکستان جیسی حمایتی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیئے۔

ہم دنیا پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ اورکرد اقوام سیکولر، روشن خیال اقدار، لبرل تشخص کے مطابق نیشنلزم کے واضح نظریے پر کاربند ہوکر اپنی اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ جس طرح کردوں نے دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے اسی طرح بلوچ قوم بھی دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ریاست پاکستان کے خلاف ناقابل فراموش قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہم عالمی برادری پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ اور کرد اقوام کے نظریے اور افکار دنیا کے لیے امن اور پائیدار ترقی کا پیغام ہیں۔ قومی ریاستوں کے قیام سے گریز دنیا کو امن کے بجائے مزید تباہی سے دوچار کرے گا۔