کردوں کا المیہ
تحریر: میرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے 9 اکتوبر کو شام کے شمالی مشرقی حصے میں فوجی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا۔ کاروائی کا آغاز تل ابیض کے علاقے سے ہوا اور اس کاروائی کو راس العین تک توسیع دینے کی منصوبہ بندی تھی، جسے کرد ملیشیا” پیش مرگا ” کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ علاقہ شامی ،ایرانی اور روسی افواج کی کاروائیوں سے محفوظ رہا جب کہ ادلیب میں بمباری روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے ۔ ادلیب شامی اپوزیشن SDF کا آخری اور مضبوط ترین علاقہ ہے۔ جہاں اس کا شامی فوج کے خلاف مقابلہ جاری ہے ۔ امریکہ پیش مرگا کا اتحادی ہے اور ترکی اس کا مخالف ہے ۔ یاد رہے پیش مرگا YPG نے امریکی اتحاد کے ذریعے اسی علاقے میں داعش ISIS کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور داعش کو شکست فاش ہوئی تھی ۔ تب بشار الاسد اور ان کے حلیف ممالک ایران اور روس نے داعش کے خلاف کارروائیوں کی آڑ میں شامی اپوزیشن SDF کو نشانہ بنایا ۔ تاہم ترکی کی حالیہ کاروائی پر انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ اردگان نے حملے کا اعلان کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ترکی اسی علاقے کو کرد ملیشیا سے پاک کرکے اسے ایک “سیف زون ” میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ جہاں ترکی میں پناہ لینے والے 36 لاکھ شامی مہاجرین کو بسایا جائے گا۔ ترکی تیسری مرتبہ اس علاقے میں کارروائی کررہا تھا اور اسے اس سے پہلے شامی اپوزیشن کی بھی حمایت حاصل تھی ۔ دوسری جانب پیش مرگا نے جسے اعلیٰ درجے کا لڑاکا فورس قرار دیا جاتا ہے بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا۔ اس کی ترک فوج سے شدید جھڑپیں ہوئیں جس سے جانی نقصان ہوا۔
تاہم USA کی دھمکی نے اردگان کی ہوا نکال دی اور ترکی نے پیش مرگا سے سیز فائر کیا ۔ اردگان کو اچھی طرح معلوم ہوگیا تھا کہ یہ صرف دھمکی نہیں بلکہ امریکہ عملی طور پر ایسا کرکے دکھا دے گا۔ کیونکہ پیش مرگا امریکہ کا بہترین اتحادی ہے اور امریکی ادارے اور سیاست دان اتنے احمق نہیں ہے کہ وہ اپنے اتحادی کو کسی علاقائی بدمعاش کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں ۔ 2011ء کے اوائل میں جب بشار الاسد کی فوج نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو اس کے فوراً بعد ہی 15 لاکھ شامی مہاجرین ترکی میں پناہ لینے میں مجبور ہوئے۔ پھر جیسے جیسے شام میں خون ریزی بڑھتی گئی ترکی میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت تقریبا 36 لاکھ شامی پناہ گزین ترکی و شام کی سرحد اور ترکی کے مختلف شہروں میں موجود ہیں ۔ شامی مہاجرین کی مجموعی تعداد تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ ہے جو ترکی کے علاوہ اردن ،عراق، لبنان اور کئی یورپی ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی کثیر تعداد کی موجودگی سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان سے یورپ بھی بہت پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ شامی تارکین وطن کی آباد کاری کے حوالے سے اردگان اور جرمن چانسلر اینگلا مرکل کی مذاکرات ہوئے اور ایک معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ شامی مہاجرین 2011ء میں یورپ پہنچنا شروع ہوئے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شامی مسئلے کے حل کے لئے پیش کی گئی قراردادوں کو روس اور چین ویٹیو کرتے رہے۔
ماضی قریب میں اوبامہ انتظامیہ کی غلط اور انتہائی بھونڈی پالیسی سے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں انتہائی سنگین مسائل نے جنم لیا۔ اسی لیئے ٹرمپ نے آتے ہی اوبامہ کے تمام معاہدوں اور پالیسز کو خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے پالیسز کو مسترد کردیا۔ لیکن اس وقت تک صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی تھی، داعش نے ترک صدر اردگان کے ساتھ ملکر شام کے شمال مشرقی علاقے پر قبضہ کرکے تیل کی تنصیبات پر اپنی تصرف قائم کرلی اور ترکی کی اعانت سے داعش نے تیل اسمگلنگ شروع کی اور بے پناہ دولت کمائی اسی دولت نے داعش کو طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش نے تیل کے اس کاروبار میں اردگان کو شامل کیا۔ اردگان اور اس کے خاندان نے اس کاروبار میں اربوں ڈالرز کمائے۔ داعش اس پورے خطے کے لئے آفریت کی مانند ابھرا۔ بلآخر ٹرمپ انتظامیہ نے اس کو مکمل ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ اور اس عمل میں کردوں نے انتہائی اہم رول ادا کرکے داعش کو نہ صرف شکست دی بلکہ داعش کے مرکزی قیادت کو گرفتار بھی کرلیا ۔ داعش اس وقت مکمل ختم ہوچکا ہے اور اس کے ہزاروں انتہا پسند پیش مرگا کے قید میں ہیں۔ اسی لئے اردگان نے پھر سے شمالی مشرقی شام حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ اپنے اتحادی داعش کو پھر سے بحال کرکے اس تیل کی دولت سے مالا مال علاقے پر قبضہ کرکے اور کردوں کو پیچھے دھکیل کر بلآخر ترکی کے زیر قبضہ کردوں پر بھی محاذ کھول دے۔
لیکنUSA نے اقتصادی پابندی کی دھمکی دے کر جسکی حمایت یورپی یونین اور نیٹو نے بھی کی ۔ واضح رہے کہ ترکی نیٹو کا رکن بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردگان کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ خود ترکی میں بھی اردگان کو انتہائی مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے، ترکی میں بیروزگاری انتہا درجے تک پہنچ چکی ہے ۔ لہٰذا اردگان پھر سے ترکی میں مقبول ہونا چاہتا ہے تاکہ اس کاروائی سے ایک تیر سے دو شکار کریں۔ لیکن امریکہ، یورپی یونین، نیٹو اور پیش مرگا نے اس کو منہ کے بل گرادیا۔
مظلوم و محکوم کرد قوم کا المیہ یہ ہے کہ کردستان پر بیک وقت چار ممالک ترکی ، ایران، عراق اور شام کا قبضہ ہے اور ان چار ممالک نے 1970ء اور 1980ء اور 1990ء میں اپنے اپنے مفادات کے لئے کردوں کو اپنی پراکسی میں استعمال کرکے ان کو انتہائی کمزور بنایا ۔ لیکن اب ان چاروں ممالک کے کرد آزادی پسند پارٹیاں ایک نقطے پر منظم ہورہے ہیں اور پیش مرگا ان تمام پارٹیوں کی منظم لڑی ہے۔ مظلوم و محکوم کردوں کا المیہ اس وقت ختم ہوگا جب ان کا عظیم وطن کردستان مکمل آزاد ہوگا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔