کثیرالقومی ریاستیں اور ان کے مسائل – جیئند ساجدی

220

کثیرالقومی ریاستیں اور ان کے مسائل

تحریر: جیئند ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

آج کے دور میں ریاستیں دو اقسام کی ہوتی ہیں ایک قسم کو قومی ریاست (Nation State) اور دوسری ریاست کو جغرافیائی (Territorial State) کہا جاتا ہے۔ قومی ریاست اور جغرافیائی ریاست میں نمایاں فرق ہوتا ہے قومی ریاست میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے، جن کی زبان ‘ثقافت اورنسل ایک ہوتی ہے اور یہ تمام لوگ خود کو مشترکہ تاریخ سے جوڑتے ہیں لہٰذا قومی ریاست کےلیئے یہ لکھنا مناسب ہوگا کہ جب کوئی قوم اپنے مشترکہ ثقافت، نسل اور زبان کی بنیاد پر کوئی ریاست تشکیل دے اسے قومی ریاست کہا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب جغرافیائی ریاست مختلف قوموں کا مجموعہ ہوتا ہے، جغرافیائی ریاست میں بسنے والے اقوام کی نہ مشترکہ زبان ہوتی ہے نہ ہی مشترکہ ثقافت اور نہ ہی مشترکہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان تمام اقوام میں ایک ہی چیز مشترکہ ہوتی ہے جو کہ ریاست کا انتظامیہ (Administration)ہوتا ہے لہٰذا ایک جغرافیائی ریاست کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جب مختلف اقوام کے لوگ ایک ریاست تشکیل دیں اسے جغرافیائی ریاست کہتے ہیں۔

بعض ساست ماہر تعلیم جغرافیائی یا کثیرالقومی ریاست کو سامراجانہ دور کا باقیات یا اس کی Exlencionسمجھتے ہیں۔سامراجانہ دور میں ایک قوم دوسرے قوموں پر حملہ کرتے تھے ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے اپنی سلطنت قائم کرتے تھے، برطانوی سامراج نے موجودہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، جنوب مشرقی ایشیاءاور Far Eastیعنی ملائیشیاءایک اپنی سلطنت قائم کی، فرانس نے شمالی افریقہ کے کئی ملکوں پر اپنی سلطنت قائم کی، اسی طرح سپین نے جنوبی امریکہ کے تقریباً ملکوں کو اپنی سلطنت کاحصہ بنایااوراسی طرح ترکی نے مشرق وسطیٰ شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ کو ترکش سلطنت کا حصہ بنایا۔ ان تمام سامراجانہ سلطنتوں میں بہت سی چیزیں مشترکہ تھیں، ایک تو ہے یہ تلوار یا طاقت پر قائم کی گئیں تھیں مفتوحہ قومیں جو ان سلطنتوں کا حصہ تھیں وہ اپنی رضامندی کے بجائے جبراً ان سلطنوں کا حصہ بنے تھے، تیسری چیز جو ان سلطنتوں میں مشترکہ تھی وہ یہ تھی ان سلطنتوں میں قوموں کے درمیان مالی ‘ سیاسی اور سماجی برابری نہیں تھی بلکہ طبقاتی نظام تھا جن کا تعلق فاتح قوم سے تھا۔ ریاست کی اہم انتظامیہ ان کے ہاتھ میں تھی اور مفتوحہ قوموں کی حالت دوسرے درجے کے شہریوں جیسی تھی، برطانوی سامراج میں برطانوی نژاد اور یورپی نژاد لوگوں کی پوزیشن عوام ہندوستانی اور ایشیائی نژاد لوگوں کے نسبتاً کافی مختلف تھی، اسی طرح ترکش سلطنت میں غیر ترک مسلمانوں اور یورپی نژاد عیسائیوں کی حالت دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح تھی، ایک اور چیز جو ان سامراجانہ ریاستوں میں مشترکہ تھی وہ تھی کہ ان ریاستوں میں وقتاً پہ وقتاً محکوم یا مفتوحہ قوموں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں کچھ بغاوتیں کامیاب ہوتی تھیں او رکچھ بغاوتوں کو بیمانہ ریاستی طاقت کے ساتھ ختم کیا گیا۔ لہذا یہ کہنا مناسب ہوگا ان کثیر قومی سلطنتوں میں امن و امان کا فقدان تھا اس کی وجہ جبراً قبضہ اور مالی ‘ سماجی اور سیاسی نا برابری تھی۔

دو بین القوامی جنگیں اسی سامراجانہ سوچ کی وجہ سے ہوئیں ۔ دوسری بین الاقوامی جنگ کے بعد یورپی براعظم نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کثیر قومی ممالک کا خاتمہ کیا اور قومی ریاست (Nation States)کا قیام کیا بہراں کچھ ریاستیں جسے کہ سابقہ یوگو سالاویا (Yogoslavia) سوئرزلینڈ ‘ بیلجئم اور سپین نے دوسری بین الاقوامی جنگ کے بعد بھی کثیر قومی ریاستوں کے تسلسل کو جاری رکھا، یورپ کے نسبت ایشیاءمشرق وسطیٰ اور افریقہ (Nation States) کا قیام کرنے میں ناکام رہے جس کی اہم وجہ یہ تھی کہ ان براعظموں میں یورپی سامراجوں کی حکومت تھی اور انہوں نے اپنے (Geo-Political Interest)کو مدنظر رکھ کر ایسی ریاستیں تشکیل دیں جو قومی ریاست کی بجائے جغرافیائی ریاستیں تھیں، جغرافیائی ریاستوں میں سے بعض میں سامراجانہ سوچ کا تسلسل جاری رکھا گیا، جیسے کہ ایک قوم کی دوسری قوموں کے اوپر بالادستی ‘ سماجی ‘ سیاسی اور مالی نا برابری جس کی وجہ ایشیاء مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے متعددکثیرالقومی ریاستوں میں محکوم اقوام اور ان کے مرکز کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے، ترکی شام اور عراق کو کرد علیحدگی پسندوں تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کو بلوچ ‘ کرد اور عربوں کی علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔

کثیر القومی ریاست افغانستان میں پشتون اور شمالی اتحاد تنازعہ مختلف ادوار میں مختلف چہروں میں قائم و دائم رہا اور قائم ہے چین میں اوگورااور تبت میں علیحدگی پسند تحریکیں ہیں، یورپ میں بھی کثیرالقومی ریاستوں (Yogoslavia)نے سول جنگ کو جنم دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ Yogoslavia)کئی آزاد قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ کثیر قومی ریاست سپین کو بھی Basqueاور Cataloniaکی علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سپین نے Basque شورش کو قابو میں کرنے کےلئے زمینی حقائق کو جانچا اور Basqueلوگوں کو علاقائی خود مختیاری دی جس کا نتیجہ یہ نکلا basgueعلیحدگی پسند تحریک تقریباً دم توڑ چکا ہے اور ان کی مالی اور سماجی حالت دیگر سپینشوں کے برابر آگئی ہے۔

اس کے علاوہ ماضی میں یورپ کے اور کثیر قومی ریاست برطانیہ کو بھی آئرش تنازعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ نے سنگین نوعیت کے آئرش مزاحمت اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر جنوبی آئر لینڈ کو مکمل طور پر آزاد کردیا، ایشیاءکے سب سے کثیر قومی ملک بھارت کو بھی اندرونی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ماضی میں بھارت میں سکھ علیحدگی پسند تحریک تھی جو ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دی گئی، ناگا لینڈ اورنکسلوں کا تنازعہ ابھی تک قائم و دائم ہے، عالمی سطح پر جس بھارتی ریاست کے اندرونی شورش نے شہرت پائی وہ کشمیر ہے، اس کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ اس تنازعے کو اقوام متحدہ تسلیم کرتی ہے اور اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ زمین(Disputed Territory)قرار دیتی اور اسے ریفرنڈم کے ذریعے حل کرنے کی تجویز بھی دے چکی ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نے Article370Aکو منسوخ کرکے کشمیر کی بھارت کے اندر انفرادی حیثیت کو ختم کردیا، جس پر کشمیری عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اس کے نتیجے میں گزشتہ60دن سے کشمیر کرفیو کی زد میں ہے Article370A کے منسوخ اور ریفرنڈم کی اجازت نہ دینے سے بھارت نے کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کو اپنے پاﺅں تلے روند دیا، ایسے جارحانہ اقدامات کسی بھی کثیر القومی ریاست میں امن واستحکام کےلئے درست نہیں اور کثیر القومی ریاست میں کسی بھی قوم کو اس کی حق خودارادیت سے دور رکھنا انتشار اور شورش کی راہیں ہموار کرتا ہے اور اس قوم یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ ان کا ریاست میں درجہ دوسرے درجے کے شہری کا ہے۔

شاہد بھارت سمیت جنوبی ایشیاءاور مشرق وسطیٰ کے کثیر القومی ریاستوں کے تھنک ٹینک اور پالیسی میکرز خود کو زمینی حقائق سے دور رکھتے ہیں اس لئے وہاں اندرونی جنگیں (Intra State Conflicts)کی تعداد کافی زیادہ ہے، سویڈن کے ایک ریسرچ ادارےStockholm Institute of Peace and Research Institution(SIPRI) نے جنگوں کے مطابق ایک ریسرچ رپورٹ شائع کیا تھا جس میں یہ دریافت ہوا تھا کہ Cold Warکے بعد لگ بھگ57جنگیں لڑیں گئیں ہیں جن میں سے صرف 3جنگیں دو آزاد ملکوں کے درمیان لڑیں گئی ہیں باقی تمام جنگیں ریاست کے وفاق اور ان کے صوبوں کے درمیان لڑی گئیں ہیں آئرش اور Basqueمسئلہحل ہوجانے کے بعد یورپ میں Intra State Conflictsکا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ وجہ یہ ہوسکتی ہے یورپ کے تھنک ٹینک اور پالیسی میکرز اس حقیقت سے واقف ہوگئے ہیں کہ موجودہ دور میں اور کثیرالقومی ریاست میں اندارونی جنگیں مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ اس لئے سپین نےBasqueکو علاقائی خودمختاری دی اور انگلینڈ نے جنوبی آئر لینڈ کو مکمل طور پر آزاد کردیا۔

اس کے برعکس بھارت نے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کردیا ایک اور بات جو زیر غور ہونی چاہئے کہ موجودہ دور میں جتنے اب تک Intra State Conflictsہیں وہ سب کے سب ایشیائی اور افریقی ریاستوں میں ہیں۔ یہ ریاستیں ویسے ہی یورپ اور شمالی امریکہ کی نسبت مالی پوزیشن میں بہت کمزور ہیں اورWelfare Stateبننےمیں ناکام رہی ہیں۔ ایسے ہتھکنڈوں سے ان غریب ریاستوں کو مالی حالات اور بھی زیادہ خراب ہونگے انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان بھی بہت سے ایشیائی اور افریقی ریاستوں کی طرح ایک کثیرالقومی ریاست ہے اوراس کو بھیNation Buildingمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔یہاں آج کل CPECکے چرچے عام ہیں کہ اس سے ملک اپنے مالی بحران سے نکل جائے گا لیکن یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ تمام صوبوں کی بجائے چند مخصوص اضلاع میں CPECکے پروجیکٹ لگائے جارہے ہیں اور وہاں ترقی دی جارہی ہے ایسے اقدامات سے پاکستان میں بسنے والے اقوام کے درمیانIntegration National نہیں بلکہ Disintegrationزیادہ پہلے گا جب کوئی بلوچستان اور فاٹا سے لاہور اسلام آباد اور فیصل اباد کی ترقی دیکھے گا تو اسے اپنی پسماندگی مالی استحصال اور دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس ضرور ہوگا۔ زیادہ گرم پانی اگر شیشے کے گلاس میں رکھا جائے تو وہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن لوہے کے گلاس میں جتنا بھی گرم پانی رکھا جائے وہ کبھی ٹوٹتا نہیں وجہ یہ شیشہ Heatکا اچھا Conductorنہیں ہوتا اور Heatہر حصے کو برابر میسر نہیں ہوتی اورصرف ایک ہی حصے تک محدود ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ ایک حصہ Heatکی تاب نہ لاتے ہوئے ٹوٹ جاتاہے جبکہ لوہا Heatکا اچھا Conductorہوتاہے اس لئے Heat اس کے ہر حصے میں یکساں فراہم ہوتی ہے اسی لئے وہ نہیں ٹوٹتا کثیر القومی ریاستوں میں بھی اسی طرح ہیں اگر ایک ملک کے ایک حصے میں ترقی دی جائے اور دوسرے حصے کو مکمل طور پر نظرانداز کی اجائے تو یہ ملک کے اندرونی سلامتی کےلئے ٹھیک نہیں لہذا کثیرالقومی ریاستیں اپنے مسائل کے حل کےلئے اپنے اندر آباد قوموں کی علاقائی شناخت کو تسلیم کرکے ان کو علاقائی خود مختاری دیں اور تمام قوموں کی مالی سیاسی اور سماجی پوزیشن کو برابر کرنے کی کوشش کرے بصورت دیگر انجام وہی ہوگا جو متعدد افریقی اور ایشیائی ریاستوں کا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔