پیشہ پیغمبری کا مذاق نہ اڑائیں – غلام رسول آزاد

472

پیشہ پیغمبری کا مذاق نہ اڑائیں

تحریر: غلام رسول آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان یونیورسٹی میں حالیہ اسکینڈل میں بلوچستان اور ملک بھر میں اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا جارہاہے۔ مگر ابھی تک کسی ذمہ دار کو منظرعام پر نہیں لایاجاسکا ہے۔ کیس کو اس قدر کمزور کیا جارہاہے کہ خدارا کسی کا نام نہ آئے۔

بلوچستان میں تعلیم دشمنوں کی یہ سازشیں ہر بار ایک نئی شکل میں آتے رہے ہیں۔ یہ بلوچستان یونیورسٹی کے خلاف پہلا سازش نہیں ہے۔ بلوچستان کے طلباء ہر بار تعلیم دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناکے آگے چلتے جارہےہیں، اور آنے والے سازشوں کا بھی سامنا کرتے رہیں گے، بلوچستان کے لوگوں کو اپنی قوم، اپنی عزت، نگ و ناموس اور تہذیب و ثقافت کو ہر چیز سے محفوظ کرتے رہنا ہوگا۔ مگر بلوچستان یونیورسٹی میں جو چند ٹیچرز کا رویہ طلبا اور طالبات کے ساتھ رہا ہے اس سے یہاں کا پر امن اکیڈیمک ماحول بری طرح متاثر ہو رہا ہے، شاید دنیا کی سب سے بڑے فلسفے کے دعووں کو بدنام کردیا گیا ہے، جو ہر وقت اپنے فلسفے سے استاد کے تقدس کی بات کرتے رہے ہیں۔

میرا ایک استاد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی ٹیچر کے ٹریفک چالان ہوا، لیکن وہ مصروفیات کی وجہ سے وقت پر چالان نہ بھر سکے۔ مہلت ختم ہونے کے بعد انہیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ جب جج نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے چالان کیوں نہیں بھرا، تو اس آدمی نے کہا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں کام کی زیادتی کی وجہ سے چالان بھرنے کے لیئے وقت نہیں نکال سکے۔ یہ سنتے ہی جج نے تمام حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ کمرہ عدالت میں ایک ٹیچر موجود ہے۔ فوراً ہی جج اور تمام حاضرین احتراماً کھڑے ہوگئے، اور اسی وقت ٹیچر کا چالان ختم کر دیا گیا۔

اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ استاد کی عزت و عظمت کس قدر دنیا میں کیا جاتا ہے، استاد کا ایک اعلیٰ رتبہ اور معیار ہے جسے ہمارا مذہب روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے۔

مگر افسوس ہمارے سوسائٹی میں ٹیچرز کی جو عزت و احترام تھی، آج ان جیسے نام نہاد ٹیچرز نے ثابت کردیا کہ استاد روحانی باپ نہیں ہوتے بلکہ آج کے استاد روحانی باپ کے تقدس اور مقام کو رکھنے میں ناکام رہا۔

مقدس کتابوں میں جو تحریریں ٹیچرز کی عزت و وقار تھیں، سب کچھ جھوٹ ثابت ہوگئے۔ اب طلبا اور طالبات کو یہ روحانی باپ کا لفظ ایک عجیب اصطلاح لگتی ہے۔

اگر آج اس کرسی پہ بیٹھ کر ایسی بدنما حرکت کررہے ہیں،آپ یہ سب کیوں نہیں سوچتے؟ اگر کل کو تمہاری فیملی میں سے کوئی بھائی، بہن و بیٹی کے ساتھ ایسا ہو پھر، اس پیشہ پیغمبری کا مذاق نہ اڑائیں۔ خدارا ٹیچرز کی شان میں کمی کا باعث نہ بنیں۔ خدارا ان درس گاہوں کو بدنام نہ کروائیں۔ خدارا! استاد کو وہ بلند مقام دلوائیں جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے والدین اپنے بچوں کو تعلیم حاصل نہ کرنے دیں۔

ان سازشوں نے یہ ثابت کردیا کہ آج ہمارے سوسائٹی میں استاد کی کوئی عزت نہیں، میں سبھی ٹیچرز کی بات نہیں کر رہا، آج چند ٹیچرز کی وجہ سےٹیچرز کی عزت و وقار کو بدنامی کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

دنیا میں دو طرح کے لوگوں کی عزت ہم سب پر لازم ہوتی ہے، ایک ماں باپ اور دوسرا ٹیچرز کی۔ لوگ اپنی ذات سے زیادہ اپنے ٹیچرز کا احترام کرتے تھے، پھر یوں ہونے لگا کہ ٹیچرز استاد کے نام کو غلط استعمال کرنے لگے۔ کبھی طلباء کے ساتھ زیادتی کے کیس میں نام آنے لگا تو کبھی طلباء کو امتحانات میں اچھے نمبروں میں پاس ہونےکے لیے ان کے عزتوں کا دسواں کرنا شروع کردیا۔

بلوچستان کو ہر وقت تعلیم سے دوری، مایوسی کا احساس دلایا گیا ہے کہ بلوچ قوم غلام ہے اور غلاموں کو کسی چیز کی آزادی نہیں ہوتی، نہ تعلیم کے میدان میں، نہ ہی کسی اور شعبے میں، مگر ہم اپنی سوچ و فکری میں ایک آزاد سوچ کے بادشاہ ہیں اور اس سوچ کو ہم سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا ہے۔ ہم نے ہر دور میں تعلیم کو ترجیج دی اور قلم کے روشنی سے مایوسی اور سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے منزل کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔

طلبا تحریک استاد اور طلبا کو معاشرے میں اس کا جائز اور مقدس رتبہ دلا کے رہے گی، ان جیسے وحشی درندوں کو مادر علمی سے نکال کر علم کے پروانے پر کوئی آنچ نہ آنے دے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔