پیراں سال حاجی محمد یعقوب کا اغواء
تحریر: آکاش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
معذرت کے ساتھ، ہم استعماری قوتوں اور اس کی تشکیل کردہ غیر فطری ریاست جس کا کوئی نظریاتی اساس نہیں ہے، جس کے ہاتھوں ہم غلام بنائے گے ہیں لیکن ہم نے اپنے آپ کو ذہنی غلام خود بنادیا ہے۔.
ہم بےقصور ہیں، یہ گیت کس کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گائیں، کس آقا سے زندگی کی بخشش مانگیں، کس کو اپنا مسیحا مان کر اس در پر حاضری دے کر فرسودہ نظام کو دوام بخشیں؟.
پیران سال حاجی محمد یعقوب کا اغواء ہونا، کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ تم اپنے مسیحا دوست نماء دشمن کے ہاتھوں بغرض تاوان اغواء کرلیئے گئے ہو، اس سے پہلے بھی متعدد علاقائی لوگ حوس زر کی خاطر آسی جگہ سے اغواء ہوتے رہے ہیں جبکہ میرے شہر کے لوگ صرف تماشائی کا کردار ادا کرکے اپنی باری کا انتظار بخوبی کرتے رہے ہیں اور خاموشی کا روزہ رکھ کر زبان سی کر جس مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے بزرگ نوجوان بچے بوڑھے مرد عورت ان کے شر سے محفوظ نہیں ہیں، ریاست کی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں سینکڑوں نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا، جن میں کچھ کی لاشیں ویرانوں سے ملی اور کئی لوگوں کی زندگی کی بخشش بھاری رقم ادا کرنے کی عوض ہوئی، جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں اب بھی نامعلوم طویل عرصے سے لاپتہ کردیئے گئے ہیں، خدا جانے کہ ضعیفی عمر میں آپ ان کے کس درد کا مداواہ ہوسکتے ہو
ایک کے بعد دوسرے اور تسلسل کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات پر ہم آنکھیں بند اور زبان سی کر جس مجرمانہ غفلت کا شکار ہورہے ہیں، مگر یہ مت بھولیں کہ اگر آج حاجی یعقوب کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے تو کل مسقط میں ملازمت کرنے والے تراسانی کے رہائشی منیر سلمانجو بھی انہی رہزنوں کے ظلم کا شکار ہوا اور آنیوالے کل تمہاری باری ہے۔
کیونکہ بقول شاعر رھزنون سے گلہ نہیں
تیری رھبری کا سوال ہے
موقع کی مناسبت سے یہ کہوں گا کہ ان رھزنوں سے گلہ نہیں تیری خاموشی کا قصور ہے، ہم اپنے کردار کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا تسلسل کے ساتھ جو گھناؤنے واقعات ہمارے بزرگوں، نوجوانوں، غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق دار علاقائی لوگوں، عزیز و رشتہ دار کے ساتھ جو گھناؤنے واقعات پیش آئے ہیں، کبھی ان کے تدارک کیلئے ہم نے سوچ و بچار کی ہے؟ کبھی ان واقعات کے رونما ہونے کے بارے میں بحث و مباحثہ کی؟ روک تھام کیلئے کوئی عملی بحث کی ہے تو یقیناً ان سب کا جواب ہمیں نہیں ملے گا اور پھر کیوں کریں گے کیونکہ ہمیں صرف پکنک منانے سے فرصت نہیں، ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت کہاں، ہم اپنے دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کرسکتے اور افسوس اکیسویں صدی کے اس جدید سائنسی صدی میں بھی ہم روایتی، سماجی، فرسودہ، بندھنوں میں بندھ کر تعفن زدہ، زنگ آلودہ، فرسودہ قبائلی نظام کو سہارا دیتے رھے ھیں جو وینٹی لیٹر پر پڑا اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
غلامی کی ان زنگ آلود زنجیروں کو توانائی دینے کے بجائے ہمیں ان سماجی روائتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہوگا تا کہ ہر روز کی حاجی یعقوب تراسانی منیر سلمانجو اور دیگر جو اپنے علاقے سے دور دیار غیر میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور کئی سالوں بعد جب اپنوں کی خوشی و غم میں شریک ہونے کیلئے آتے ہیں تو آن ظالموں رھزنوں کے شکار بن جاتے ہیں جن کی رھزنی کو ھم اپنے عمل و کردار سے آکسیجن فراہم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان ہھی رھزنون کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے آپ کی ننگ و ناموس کی حفاظت کے لیے باکردار نوجوان پارود، بولان، مکران سے ہوتے ہوئے سوھیندہ کے چشمے سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہے ہونگے اور اپنے دوست و بھائی، اپنے نظریاتی و فکری سنگت خاران کے پھل کے ساتھ ( جن کے کردار وعمل کو بیان کرنے کیلئے نہ میرے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی قلم ساتھ دے رہی ہے اور نہ ہھی میرے وجود میں اتنی ہمت اور سکت ہے کہ میں آن عظیم کرداروں پر کچھ الفاظ تحریر کرسکوں) جنہوں نے تراسانی خیر کو اپنا مسکن بنایا اور آج گزان سے دیکھ رہا ہوگا اور اپنے کارواں کے ہمسفر ساتھیوں سے علمی بحث کررہا ہوگا، منطق اور دلیل دے رہا ہوگا کہ آج کے نوجوانوں نے، آج تراسانی کے لوگوں نے اپنے کردار کو اپنے عمل کو جانچنے کی کوشش کی ہوگی، اپنے اعمال و کردار کا ازسر نو جائزہ لے کر آن عناصر کی نشاندہی کی ہوگی جو ان بد کرداریوں میں ملوث ہیں، جو علاقے کے کیلئے ناسور کی شکل اختیار کرچکے ہیں، اپنے صفوں سے ان کی پہچان کرنی ہوگی، ان کو لوگوں کے سامنے آشکار کرنا ہوگا تاکہ آج کے بعد کوئی حاجی یعقوب کسی کے حوس مال کے بھینٹ نہ چڑھے تاکہ دوست اور دشمن کی پہچان ممکن ہو۔
اگر آج میری بہنیں حاجی یعقوب کی بیٹیاں در در کی ٹھوکریں کھارہی ہیں، تو کل کوئی اور باپ کی بیٹی اور کوئی بھائی کی بہنیں اپنے باپ اپنے بھائی کی زندگی کیلئے بھیک مانگ کر روز مرے اور روز جیئے کے مصداق کرب و درد میں مبتلا ہونگے، آج ایک بیٹی کا سہارا لاپتہ ہے، مگر ہم روڈ پر کسی نیٹ ورک کی جگہ بیٹھ کر گوان شاپ کی شکار پکنک فلم فٹبال وغیرہ کے باتوں میں مشغول ہونگے تو میرے خیال میں ہمارے مردہ ضمیر ہونے کیلئے یہی کافی ہے تو پھر ہمارے بے مقصد زندہ ہونے سے قبرستان میں سوئے ہوئے ان چند باضمیر غیرت مند دوستوں کی قبریں ہزار گناہ بہتر ہیں۔
اگر ہمیں اپنے زندہ ہونے کا یقین کرنا ہے تو اس درد کو محسوس کرنا ہوگا اس پر لب کشائی کرنی ہوگی گزان اور تراسانی ماس کے قبرستان میں سوئے ہوئے ان بہادروں کی بہادری کو ان شہزادوں کے کردار کو یاد کرنا ہوگا خاران سے آئے ہوئے اس پھول کی خوشبو کو اور اس غیرت کی آواز کی اواز کو محسوس کرنا ہوگا، تب ہم ایک زندہ قوم ہوسکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔