بی بی سی کی 100 خواتین کی فہرست میں اس برس بلوچستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر کا نام بھی شامل ہے۔
دنیا بھر کی 100 با اثر خواتین میں شامل کیے جانے پر جلیلہ حیدر خوش بھی ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم بھی۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اتنے بڑے ادارے نے مجھے اور میرے کام کو سراہا۔ لیکن اِس کے بعد اب ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ جیسے کہ اب بہت سارے لوگ توقع کرتے ہیں ہم اُس معاملے پر بات کریں اور اِس پر نہ کریں۔
جلیلہ حیدر سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں متبادل بیانیہ رکھنے والوں پر ایجنٹ کا لیبل یا کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا مگر یہ تو ہم ملک کی خاطر کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ہو رہا ہے تو اُس پر تنقیدی رائے دیں تاکہ اُسے درست سمت استوار کیا جا سکے۔
بچوں کے حقوق سے سماجی کارکن بننے تک کا سفر
اپنے والد کی زندگی میں پُرآسائش زندگی گزارنے والی 12 سالہ جلیلہ کو اپنے والد کی خودکشی کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے جہاں آسمان سے زمین پر لا پٹخہ وہیں اُنھیں یہ بھی سمجھا دیا کہ ’کچھ ہے جو برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیوںکہ ریاست ہر بچے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔
اس کے بعد جلیلہ کی والدہ گھر کے گزر بسر کے لیے ہوم سکول چلاتی تھیں۔ یہاں آنے والے بچوں کو دیکھ کر اُنھیں احساس ہوا کہ کچھ بچے اِس دنیا میں اُن سے بھی زیادہ برے حالات میں ہیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب انھوں نے بچوں کے حقوق اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے کام کا آغاز کرنے کا سوچا اور ایک فلاحی سکول میں چھ سال تک تدریس کے شعبے سے وابسطہ رہیں۔
دو ہزار گیارہ کے دوران سوشل ازم کا مطالعہ کیا اور چند تحریکوں سے وابسطہ ہونے کے بعد جلیلہ حیدر کو معلوم ہوا کہ مزاحمت میں بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ یہی وہ سال تھا جب ہزارہ زائرین کو بس سے اُتار کر اُن کی شناخت کی بنیاد پر گولیاں ماری گئیں۔
جلیلہ کے مطابق اُس وقت مجھے زندگی میں پہلی بار پتہ چلا کہ ہماری شناخت ہمارے لیے کتنی خطرناک ہے۔
یہ وہ موقع تھا جب جلیلہ حیدر نے سماجی کارکن یا انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر کام کیا اور ہزارہ خواتین کو کوئٹہ پریس کلب پر جمع کر کے پہلی بار برادری کی خواتین کا منظم مظاہرہ کیا۔
اُسی سال میری قانون کی تعلیم بھی مکمل ہوئی تو میں نے اپنے آپ کو امپاورڈ محسوس کیا۔
وکالت اور سماجی خدمت کا کام چلتا رہا لیکن گذشتہ برس 2018 میں جب جلیلہ حیدر سٹاک ہوم جینڈر اکوالٹی فورم سے واپس آئیں تو اپنی والدہ کو فیس بُک پر ایک بچے کی ویڈیو دیکھتے پایا۔ ویڈیو میں بچہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا کیونکہ اُس دن پھر ہزارہ برادری پر حملہ ہوا تھا۔
جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ میری بنیاد اُس بچے کی چیخ سے ہل گئی اور میں دوڑ کر کوئٹہ پریس کلب چلی گئی۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ ہمارے مرد بہت زیادہ مصلحت پسند ہیں اور اِس معاملے کو انسانی بنیاد پر نہیں دیکھ رہے۔
وہاں میں نے تمام اقوام سے اپیل کی کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔
جلیلہ سمجھتی ہیں کہ یہ ہزارہ برادری کا دیگر برادریوں کے ساتھ پہلا باقاعدہ رابطہ تھا جس کے پیچھے اُس بچے کی چیخ تھی جو اُنھوں نے فیس بُک پر سنی تھی۔