پاکستان آمد کا کوئی ایک ایجنڈا نہیں ہے – افغان طالبان

128

طالبان کے سیاسی دفتر کے اعلیٰ سطح کے وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔

آج (جمعرات) کو دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران فریقین نے افغان امن مذاکرات کی جلد بحالی کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کا 12 رکنی وفد دفتر خارجہ پہنچا۔ جہاں شاہ محمود قریشی نے اُن کا استقبال کیا اور وفد کو وزارت خارجہ آمد پر خوش آمدید کہا۔

اُس موقع پر پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔

ملاقات کے دوران خطے کی صورت حال، افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مشترکہ ذمہ داری کے تحت نہایت ایمانداری سے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے۔ پُر امن افغانستان پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔

ان کے بقول، ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں تاکہ دیرپا اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر اُستوار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چالیس برسوں سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں ملک یکساں طور پر بھگت رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ اُنہیں خوشی ہے کہ آج دنیا افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔

افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کی تعریف بھی کی۔

یاد رہے کہ افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی برادری کی سربراہی میں بدھ کی شب پاکستان پہنچا ہے۔

طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق طالبان کے وفد میں مذاکراتی ٹیم کے رہنماؤں سمیت پولیٹیکل آفس کے سینئر ارکان شامل ہیں اور یہ وفد چھ اکتوبر تک پاکستان میں قیام کرے گا۔

اُن کے بقول، طالبان کے وفد کی پاکستان آمد کا کوئی ایک ایجنڈا نہیں ہے۔ اس دورے کے دوران ​امن مذاکرات، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سمیت افغان مہاجرین کے مسائل اور دوطرفہ تعلقات پر بات چیت ہوگی۔

امریکہ کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان مسلسل علاقائی طاقتوں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک کی قیادت سے رابطے کر رہے ہیں اور اس سلسلے کا یہ اُن کا چوتھا دورہ ہے۔

اس سے قبل حالیہ چند روز کے دوران طالبان رہنماؤں نے روس، چین اور ایران کا بھی دورہ کیا تھا۔