پانچ ہزار لاپتہ افراد میں سے صرف 400 بازیاب ہوئیں ہیں- اختر مینگل

200

لاہور  میں منعقدہ تین روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے   ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے کہا کہ صوبوں کو ابھی تک وہ خود مختاری نہیں ملی، جس کا وعدہ ان سے پاکستانی آئین میں کیا گیا ہے

انہوں نے کہا  منتخب صوبائی حکومت صوبائی چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس تک کو تعینات نہیں کر سکتی اور ان کی تقرری بھی وفاقی حکومت کرتی ہے۔

اختر مینگل نے الزام لگایا کہ کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان میں طالبات کے کمروں میں کیمرے لگائے گئے، بچیوں میں تعلیم کی شرح وہاں پہلے ہی کم ہے، اور اب وہاں والدین مزید پریشان ہو گئے ہیں، ان کے بقول اس صورت حال کے باوجود اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ابتدائی طور پر نہیں ہٹایا گیا تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر نے منصفانہ احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پوچھا کہ آیا پاکستان میں صرف سیاست دان ہی کرپٹ ہیں؟

انہوں نے کہا کہ دیگر اداروں کے اہلکاروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے اور ملک توڑنے، ڈالروں کے عوض پاکستانی شہریوں کو دوسرے ممالک کے حوالے کرنے اور منتخب حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرنے والوں کو بھی جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔

اختر مینگل نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات پاکستان کے ہر شہر میں پیدا ہوں، تو ہی شاید ملک میں الیکشن منصفانہ ہو سکتے ہیں، صوبے اور سینیٹ با اختیار ہو سکتے ہیں، پارلیمنٹ میں فاٹا کی نمائندگی تو ہے لیکن وزیرستان کے وہ ارکان پارلیمان جنہوں نے احتجاج کیا تھا، مشکل سے ہی اپنی جان بچا کر واپس آئے ہیں۔

اختر مینگل کے مطابق بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہو جانے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے اور پچھلے ایک سال میں صرف 400 افراد کو بازیاب کرایا جا سکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانون کی بالا دستی اور وفاقی پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور میڈیا کا آزاد ہونا بھی لازمی ہے۔