ورلڈ ٹیچرز ڈے اور بلوچستان کے گمنام اساتذہ – بالاچ قادر

903

ورلڈ ٹیچرز ڈے اور بلوچستان کے گمنام اساتذہ
(لاپتہ رفیق اومان کے نام)

تحریر: بالاچ قادر

دی بلوچستان پوسٹ

5اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھرمیں عالمی یوم اساتذہWorld Teachers Day منایا جاتا ہے، جس کا مطلب ان استاتذہ کی حوصلہ افزائی اور خراج تحسین پیش کرنا ہے جو معیاری تعلیم و اچھے تربیت کے ذریعے بچوں کی ذہنی نشونماء میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ عالمی حوالے سے اس دن کی بیک گراؤنڈ کچھ اس طرح ہیکہ 5اکتوبر1996 کوفرانس کے شہر پیرس میں اساتذہ کی معاشرے میں اہمیت کے حوالے سےThe Special intergovernmental conferenceہوا جس پر یونیسکو اور دیگر عالمی لیبرتنظیموں کی نمائندوں نے دستخط کیئے۔ پھر12 اکتوبر 1997کو یونیسکو کا جنرل کانفرنس منعقد ہوا، اس کانفرنس کے دوران 11نومبر1997کو Recommendation concerning the status of higher education teaching personalsکو ایڈوپٹ کیا گیا۔ پہلی بار عالمی یوم استاتذہ کا دن 5اکتوبر 1994کو منائی گئی۔

اس دن سے لیکر آج تک پانچ اکتوبر کو دنیا کے تمام ممالک میں ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ معاشرے میں ٹیچر کی اہمیت، وقار اور عزت کے بارے میں اس دن بڑے بڑے بھاشن دیئے جاتے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اپنے مملکت خداداد میں بھی اسٹیجوں کا سجایا جاتا ہے، استادوں کی اہمیت پر لمبی لمبی تقاریر کی جاتی ہیں۔

اب آتے ہیں بلوچستان کی طرف، جہاں اساتذہ کا دن منانے سے زیادہ ان کے یوم شہادت اور اغواء کے دن منایا جاتے ہیں۔ استادوں کیلئے یہ وہ بدبخت سرزمین ہے جہاں عزت، وقار، اسٹیٹس، تنخواہ سے زیادہ اساتذہ کو اپنی جان کی فکر رہتا ہے۔ بلوچستان میں گذشتہ ایک دہائی سے درجنوں استاتذہ کو چُن چُن کر مارا گیا یا تو اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا۔ قاتل کون ہے؟ اساتذہ کو کیوں قتل کیا گیا؟ اس سوال کا جواب شاید مشکل ہو۔

بلوچستان کے گمنام اساتذہ میں سے ایک رفیق اومان ہے، جنہیں 21ستمبر2014یعنی آج سے چھ سال قبل بل نگور سے تربت جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔ رفیق اومان گورنمنٹ ہائی اسکول بل نگور میں ہیڈ ماسٹر اور بلوچی زبان کے معروف گلوکار ہیں۔ رفیق اومان کا گناہ کیا ہے، کس جرم میں پابند سلاسل ہے؟ شاید یہ ان کو خود بھی معلوم نہ ہو۔

وہ کلاس میں محبت پڑھایا کرتے تھے،علم، شعور، آگہی اور انسانیت پر لیکچر دیا کرتے تھے، ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں روشنی کی شمعیں جلانے والا استاد بھلا کیوں کر غائب ہوا اور چھ سال گذرنے کے بعد بھی لاپتہ ہے۔ کاش کوئی جاکر ان اغواء کاروں کو بتائے کہ رفیق استاد ہے، اس کے ہاتھ میں ہمیشہ قلم ہوا کرتا تھا بندوق نہیں، اس کے بیگ میں کتابیں ہوا کرتے تھے تخریبی مواد نہیں۔ کاش کوئی جاکر ان کو بتا دے کہ استاد انسانیت پڑھاتے، شعور پڑھاتے ہیں، جینے کا گر سکھاتے ہیں۔ استاد روشنی ہے، اور روشنی کو کب تک قید کرکے رکھوگے۔

کاش کوئی جاکر ان سے التجاء کرے کہ سچائی کا مذہب نہیں ہوتا، روشنی کی دین نہیں ہوتی، قلم اور کتابوں میں تخریبی مواد نہیں انہیں چھوڑ دو،جینے دو۔

آج دنیا بھر میں جہاں لوگ اساتذہ کا دن منا رہے ہیں، وہاں بل نگور ہائی اسکول کے دیواروں پر تاریکی راج کررہی ہے، خاموشی ہے، بے زبان کرسیوں، کمروں کے روشن دانوں اور کھڑکیوں میں بے چینی ہے، اس شخص کا جس نے محبت کے گیت گائے تھے، نغمے، پیار کے نغمے، اظہار کے نغمے، شعور کے نغمے، انسانیت کے نغمے۔

ٹیچرز کے عالمی دن پر یہ سوال تو لازمی بنتا ہیکہ رفیق اومان سمیت ان سینکڑوں استادوں کے خاندان اس دن کوکیا منائیں جن کو کتابیں رکھنے کی پاداش میں لاپتہ کردیا گیا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔